Wednesday, July 18, 2012

**JP** روشنی کی کرن

 

روشنی کی کرن

ونگ کمانڈر(ر)زرین قریشی
آج سے چند سال پہلے جب افتخار چوہدری صاحب سپریم کورٹ میں ایک بنچ کے سربراہ تھے۔ میرے ایک دوست رانا صاحب فیصل آباد سے ایک پیشی کے سلسلے میں تشریف لائے۔ یہ پیشی 1965ء کے ایک مقدمے کے سلسلے میں تھی جس میں ایک پٹواری نے مختارنامہ میں جعلسازی سے ان کی ساری زمین اپنے نام کروالی۔اس مختارنامے کو بعد میں رانابرادران نے منسوخ کروادیا جسے عدالت میں چیلنج کیا گیا مقدمہ چلتے چلتے سپریم کورٹ آپہنچا۔بھاری فیس اداکرکے ایک وکیل صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وکیل صاحب نے مقدمہ تیارکرلیالیکن ہم سے کہاکہ اگرسپریم کورٹ میں رسائی ہوتوکوشش کریں' مقدمہ چوہدری افتخارکے بنچ میں نہ لگے۔ پہلے تو ہم نے اسے سنجیدہ نہ لیا' لیکن مقدمہ کی شنوائی کے دوران بات سمجھ میں آئی۔ مقدمے کی پکارپرہم نے اپنے وکیل صاحب کو بڑی مشکل سے سیٹ سے اٹھایا ۔ ایسالگتا تھاکہ انہیںکوئی سانپ سونگ گیاہے۔ ہمارے مقدمے کی پکارسے پہلے ایک اورمقدمہ پیش ہوا جس کی رودادکچھ ایسے تھی کہ ایک جگہ ایک سیشن جج کے بیٹے کا اینٹوں کابھٹہ تھا جس پر اکثر بجلی چوری کی جاتی تھی۔ واپڈا کے لائن مین نے بھٹے کی بجلی کاٹ دی جسے سیشن جج کے بیٹے نے کافی جرمانہ اداکرکے بحال کروایا۔ کچھ عرصے کے بعد اس لائن مین کو کسی رشوت کے مقدمے میں اسی سیشن جج کے پاس پیش ہونا پڑا جس نے بیک جنبش قلم اس لائن مین کو نوکری سے برطرف کردیا۔ 15 سال کی تگ ودوکے بعد وہ لائن مین سپریم کورٹ پہنچا اور انصاف کی استدعاکی اس دوران میں وہ جج ریٹائرڈ ہوچکا تھا ۔ افتخار چوہدری صاحب نے سیشن جج سے چند مختصرسے سوال کیے۔ ''کیا تمہارے بیٹے کا بھٹہ تھا؟'' ''کیا اس کی بجلی اس لائن مین نے کاٹی تھی؟'' ''اس لائن مین کا مقدمہ تمہاری عدالت میں کس طرح لگا اور اگرمقدمہ تمہارے پاس آیاتو تم نے اسے کسی دوسرے جج کے پاس کیوں نہ منتقل کیا؟'' سیشن جج کے پاس ان سوالات کاکوئی معقول جواب نہ تھا۔ افتخار چوہدری صاحب نے اس دن کی کارروائی پرمختصرسا فیصلہ سنادیا اور اس سیشن جج سے کہاکہ اس غریب لائن مین کوبرطرف کرتے ہوئے تمہیں خداکا خوف نہ آیا' اس کے بچوں کا خیال نہ آیا' اس کی بیوی اور دوسرے رشتہ داروں میں اس کی رسوائی کا نہ سوچا' کیا تمہارے اندروہ انسانیت مرگئی تھی کہ ایک ذاتی انتقام کے لیے مقدمہ خود اپنے پاس لگاکر اس غریب کونوکری سے نکال دیا جو پچھلے 15 سال سے رسوا ہورہاہے۔ چوہدری صاحب نے فوری طورپر اس غریب لائن مین کونوکری پربحال کرکے اس کے بقایاجات اداکرنے کا حکم دیا اور سیشن ج صاحب کو حکم صادرکیاکہ اس غریب لائن مین کی 15 سال کی اذیت کی تلافی کرو' اسے راضی کرو۔ اس سے معافی مانگو اور اس کی تکالیف کا ازالہ پیسے اداکرکے کرویا کوئی اورطریقہ اختیار کرو۔ 15 دن کے بعد کی پیشی میں اگریہ راضی نہ ہواتو میں خود قانون کے طاقت سے اس کی زیادتی کا ازالہ کروں گا اورتمہیں نشان عبرت بنادوں گا۔ چوہدری افتخارکی عدالت میں ہم اپنا مقدمہ ہارگئے۔ ہمیں اپنے مقدمے کے ہارنے کا اتنا افسوس نہیں تھا جتنی خوشی اس لائن مین کے مقدمے کے فیصلے میں ہوئی۔ گھٹاٹوپ اندھیروں میں ایک روشنی کی کرن دکھائی دی۔ قرون اولیٰ کی یادتازہ ہوگئی۔ بجھی ہوئی آگ اور بکھری ہوئی راکھ میں ابھی ایک چنگاری کی موجودگی کا احساس ہوا۔ وہ دن اس لائن مین کے مقدمے کی پیروی کی وجہ سے میری زندگی کا ایک یادگاردن بن گیا۔ دل سے بے ساختہ ایک خاموش دعانکلی کہ ''اللہ تعالیٰ اگر اس شخص کو اس سے بھی آگے بڑھ کر مزید اختیاردے تو شاید ہمارے ملک کی تقدیر سنورجائے۔ ڈاکٹرارسلان افتخارکوسوموٹوایکشن کے ذریعے چیف جسٹس نے پہلے مقدمے کی شنوائی کا فیصلہ کیاتو یک لخت مجھے وہ لائن مین والا مقدمہ یادآگیا۔ سوچاکہ آج پھرایک جج اپنے بیٹے کا مقدمہ لینے کے لیے انصاف کا ترازولے کرخودبیٹھ گیاہے۔ لیکن چیف جسٹس صاحب نے اپنے بیٹے کے مقدمے کو دوسرے ججوں کے حوالے کرکے عدلیہ کی تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ کردیا۔ چرچل نے کہاتھا کہ جب تک برطانیہ کی عدالتیں انصاف کے مطابق فیصلے کرتی رہیں گی' برطانیہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ یہ کہاوت برطانیہ ہی نہیں کسی بھی ملک کے لیے صادق آتی ہے۔ عدالتوں سے انصاف ملتارہے تومعاشرہ ٹوٹنے سے بچ جاتاہے۔ معیشت تباہ ہونے سے بچ جاتی ہے۔ حکومتیں رسواہونے کی حدتک نہیں پہنچتیں ۔ انسانیت کا احترام قائم رہتاہے۔''آدمیت احترام آدمی۔ باخبر شوازمقام آدمی''ابراہم لنکن الیکشن جیتنے کے بعد اپنے دفترپہنچتے ہی سب سے پہلے چند ڈالراپنے سیکرٹری کے حوالے کرتے ہیں کہ الیکشن کی مہم کے لیے یہ چند ڈالراپنی پارٹی کے فنڈسے لیے تھے جو خرچ ہونے سے بچ گئے۔ پارٹی کی امانت پارٹی کے حوالے کردی۔ تھوڑی دیربعد ان کا ایک دوست ان کے دفترمیں داخل ہوا اور کسی بڑے کاروباری ٹھیکے کے لیے مددطلب کی۔ ابراہم لنکن نے معذرت کی لیکن وہ بازنہ آیا۔ اس نے مزیدکہا کہ آپ کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ اس میں اپنا فیصلہ میرے حق میں کرسکتے ہیں۔ صدر اپنی بات پرقائم رہے تو ان کے دوست نے اس کاروبار کے منافع میں چند فیصد حصہ کی پیشکش کی جسے صدرنے پھرردکردیا۔ بڑاکاروباری ٹھیکہ تھا جس پر انہیں مزید آفر کی گئی توصدرصاحب نے کچھ تاریخی الفاظ اپنے قاصد سے کہے۔ ''
Take out this Bastered From my office he is reaching my price''
ارسلان افتخارکے مقدمے میں بھی خریدوفروخت کا ذکر کیاگیا۔کہتے ہیں افتخار چوہدری کو بیٹے کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی گئی جس کا تعین کرنا ابھی باقی ہے۔ لیکن اگریہ صحیح بھی ہے تب بھی یقین ہے کہ کوئی افتخار چوہدری کو خریدنے کی قیمت نہ دے سکا ہوگا۔ وہ شخص جس نے کسی دھونس دھاندلی اورظلم زیادتی کا مقابلہ مردانہ وارکیا اور اکیلے ایک جابرڈکٹیٹرسے ان کے کارندوں کی موجودگی میں نہ بکا اور نہ جھکا۔ اکیلے اس لیے اس وقت تو اسے یہ پتا نہ تھا کہ قوم اس کا ساتھ دے گی اور نہ ہی ماضی کی کوئی مثال موجود تھی۔ جب قوم نے کسی ڈکٹیٹرکے مقابلے میں حق کا ساتھ دیاہو ۔ ابھی کل کی بات تھی کہ نوازشریف صاحب کو 70 فیصد کی اکثریت کے ہوتے ہوئے عقوبت خانے میں ڈال دیاگیا تھا لیکن کہیں سے بھی اس کی حمایت میں کوئی آواز نہ اٹھی بلکہ ''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوادینے لگے۔'' آخرجلاوطنی کی صورت میں بچت کی ایک صورت نکلی۔ ایسے حالات میں کسی ظلم کے مقابلے میں ڈٹ جانا ایک غیرمعمولی قوت فیصلہ کی نشاندہی کرتا ہے اور اس کے ساتھ یہ جرات رب کریم کی خاص رحمت ہے۔ اس کردارکے باپ کی اولاد کا اس طرح کسی بدکرداری کا مظاہرہ کرنا سمجھ سے بالاترہے۔ ابراہم لنکن نے اپنے بیٹے کے استادکو ایک خط لکھا جس میں اپنے بیٹے کی تربیت کے حوالے سے چند مشورے
شامل تھے۔ان میں سے ایک مشورہ تھا کہ تم اس کے استاد ہواسے بتائوکہ
''Sell your Brain to the highest bidder but not put pricetag on your heart and soul ''۔
عمربن عبدالعزیز خلافت کا حلف اٹھاتے ہیں اور اپنے بیٹے سے کہتے ہیں کہ بیٹا ہمارے اجداد نے لوگوں پرظلم کرتے ہوئے یہ ساری جائدادیں غاصبانہ انداز میں حاصل کی ہیں جن پر ہم آج حکمرانی کررہے ہیں۔ ان پرہماراکوئی حق نہیں ہے۔ بیٹا کل سے ہی منادی کروادو کہ جن جن لوگوں کاحق غصب ہواہے وہ اپنی غصب شدہ جائداد واپس لے لیں ۔ بیٹے نے کہا اباجان کل کیوں آج ہی کیوں نہیں۔ آپ کو کل تک زندہ رہنے کا یقین ہے؟ بیٹے کی اس بات پر فوراً عمل کیا گیا ۔ منادی کرواکر حق داروں کو فوراً ان کا حق واپس کیاجانے لگا۔

No comments:

Post a Comment