Saturday, August 4, 2012

**JP** اژدھا کے منہ میں چار سال.قسط پنجم۔ بحری قید خانہ

اژدھا کے منہ میں چار سال
ملاعبدالسلام ضعیف سابق سفیر افغانستان برائے پاکستان
قسط پنجم:-بحری قید خانے میں
          جب تھوڑے بہت اوسان بحال ہوئے تو دیکھا کہ یہ ایک بالکل تنگ سی جگہ ہے جہاں تین دیگر چھوٹے چھوٹے کمرےتھے۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بھی تھی جس میں متعین اہل کار ہر وقت موجود رہتا تھا۔ یہاں پانی اور واش روم کا انتظام بھی تھا۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ وہ سمندری جہاز ہے جو افغانستان میں جنگ کی خاطر امریکہ نے بحر ہند میں متعین کردیا تھا۔ اس جہاز میں نیچے کی جانب چھٹی منزل پر میں مقید تھا۔ میں نے نہ تو سمندر دیکھا تھا اور نہ یہ بحر ی جہاز کیونکہ یہاں لاتے وقت میری آنکھیں مکمل طور پر سیاہ پٹی سے باندھی گئی تھیں اور اوپر سے موٹے اور سیاہ کپڑے سے بنا ہوا تھیلا بھی پہنا دیا گیا تھا جس نے مجھے دیکھنے سے مکمل طور پر محروم کیا ہوا تھا لیکن صبح و شام بحری جہاز کے انجنوں کی گڑگڑاہٹ اور حرکت سےاندازہ ہوتا تھا کہ میں امریکہ کے ایک بحری جہاز کی نچلی منزل پر قید ہوں۔
          اس کے باوجود کہ مجھ پر سخت خوف طاری تھا، آنکھیں مشکل سے حرکت کرتی تھیں اور زبان تو سوکھ کر تالو سے چپک گئی تھی، ذہن مستعدی سے سوچ بچار میں مصروف تھا۔ بائیں طرف کا کمرہ خاصا بڑا لگ رہا تھا اور گمان ہوتا تھا کہ کئی دیگر قیدی بھی اس کمرے میں موجود ہوں گے۔ صبح ہوتے ہیں سب کی تلاشی ہوئی، ناشتہ دیا گیا۔ اس سرگرمیوں سے اندازہ ہوا کہ ایک اور بھائی بھی یہاں لائے گئے ہیں۔ ہم بات نہیں کرسکتے تھے لیکن ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ کئی قیدی روٹی کے بہانےاپنے کمرے سے چھپ چھپ کر مجھے دیکھ رہے تھے اور میں بھی دُزدیدہ نگاہوں سے ان کا جائزہ لیا کرتا تھا۔ ایک دودن بعد مجھے معلوم ہوا کہ ملا فاضل محمد، نوراللہ انوری صاحب، برہان وثیق صاحب اور غلام روحانی صاحب بھی یہاں موجود ہیں لیکن شدید خواہش کے باوجود ہم گفتگو نہیں کرسکے بس حسرت بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
          صبح ہوئی تو مجھے ہتھکڑیاں لگا دی گئیں اور دائیں طرف  ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں تفتیش کا پہلا مرحلہ شروع ہوا۔ کاغذ پر مختلف پہلووں سے میری انگلیوں کے نشان لیے گئے۔ بائیوگرافی لکھ دی گئی، کئی تصویریں اتاری گئیں لیکن کوئی پوچھ گچھ کیے بغیر واپس اپنے قفس میں لایا گیا۔ یہاں آکر دیکھا کمرے میں مزید کچھ چیزیں رکھ دی گئیں تھیں۔ ایک کمبل اور رضائی کا اضافہ ہوچکا تھا جس کی مجھے شدید ضرورت تھی۔ سفید رنگ کی قابوں میں کچھ خوراک بھی موجود تھی جو ایک فرائی انڈے اور نیم پختہ چاولوں پر مشتمل تھی۔ کھانا کھانے کی سکت نہیں تھی بس چکھنے پر اکتفاء کیا۔ برتن فوراً فوجیوں کے حوالہ کردیے اور چند لمحے آرام کا ارادہ کیا۔ ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ ہتھ کڑیوں کی جھنکار اور سپایہوں کے شور و غل سے بیدار ہوا۔ انھوں نے دوبارہ ہتھکڑیاں لگا دیں اور اسی کمرہ ء تفتیش میں پہنچا دیا۔
          تحقیق و تفتیش کے اس دوسرے مرحلے میں بہت کم سوالات پوچھے گئے جو تمام اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے متعلق تھے۔ کہاں ہیں یہ لوگ؟ کیسے ہیں؟ کہاں تھے؟اور کہاں چلے گئے؟ اور عام طور پر طالبان کے متعلق کہ یہ لوگ کون تھے اور کہاں غائب ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک سول جو مختصر تھا لیکن بار بار پوچھا جا رہا تھا وہ نائن الیون کے متعلق تھا۔"آپ کو اس واقعےکے متعلق کچھ علم ہے یا آپ نے کچھ سنا تو نہیں ہے؟"
          یہ بات ان کے علم میں تھی کہ نائن الیون کے واقعات میں نہ میرا کوئی ہاتھ تھا اور نہ مجھے علم تھا کہ اس حادثے کے پیچھے کون ہے؟اورشاید یہ کسی کو بھی پتا نہ چلے کہ اس حادثے کے ذمہ دار کون تھے؟ہزاروں مسلمان شہید کردیے گئے۔ ان گنت قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں لیکن ابھی تک امریکہ اس بات پر قادر نہ ہوسکا کہ ایک حقیقی ملزم عدالت میں پیش کرسکے نہ امریکی عوام کو کوئی شافی جواب دے سکا۔بے بنیاد الزام لگا کر کسی کو بھی بغیر کسی قانونی جواز اور ثبوت کے گرفتار کر لیا جاتا ہے ، ملکوں کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے، ہر قسم کی اخلاقی،انسانی اقدا ر کو پاوں تلے روندا جاتا ہے۔ جس کو چاہے دہشت گرد کا لیبل لگا کر بدنام کیا جاتا ہے اور تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ہمارے حکمرانوں کے قویٰ کمزور ہوچکے ہیں اس لیے وہ اس سازش  کا پردہ چاک نہیں کرسکے بلکہ امریکہ کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کرنا اپنے باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔
          چار پانچ دن اسی طرح تفتیش ہوتی رہی۔ بالکل الٹے سیدھے سوالات ہورہے تھے۔ لیکن یہاں میرے لیے یہ امر باعثِ اطمینان تھا کہ ان چار پانچ دنوں میں مجھ پر کوئی جسمانی تشدد نہیں ہوا نہ کوئی سزا ہوئی اور نہ کوئی خاص ذہنی اذیت دی گئی۔ لیکن اتنی تنگ جگہ میں مطلوبہ ضروریات میسر نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کے یہ لمحے گزارنا انتہائی مشکل ہورہا تھا۔
          اس جہاز پر پانچ چھے دن ہی گزرے تھے کہ صبح ناشتہ کرنے کے بعد بھورے رنگ کی ایک وردی تھما دی گئی اور حکم ہوا کہ پہلی والی وردی اتار کر یہ وردی پہن لوں۔ چند لمحے بعد منتقلی کی کارروائی شروع ہوئی ۔ ہم سب کے ہاتھ پاوں باندھ دیے گئے، سر پر سفید پلاسٹک کے تھیلے پہنا دیے گئے تا کہ کچھ نظر نہ آسکے۔ معلوم نہیں اب کون سا اذیت ناک مرحلہ درپیش تھا۔
باقی آئندہ
 

No comments:

Post a Comment