http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/01/110101_camera_on_head_zs.shtml
وفا بلال کی تیسری آنکھ
'یہ اب بھی تکلیف دیتی ہیں'۔ یہ کہنا ہے وفا بلال کا اور ان کی یہ بیان حیران کن نہیں ہے۔
عراق سے تعلق رکھنے والے وفا نے اپنی کھوپڑی کی پچھلی جانب ٹائٹینئم کے تین ٹکڑے لگوائے ہیں جن پر ایک کیمرہ نصب کیا گیا ہے۔
یہ کیمرہ آئندہ ایک برس تک ہر منٹ پر ایک تصویر لیتا رہے گا اور یہ تصویریں قطر کے دارالحکومت دوہا میں منعقدہ فنونِ لطیفہ سے متعلق ایک شو میں دکھائی جاتی رہیں گی۔ اس کیمرے میں جی پی ایس نظام بھی موجود ہے جو وفا کی تمام حرکات پر نظر رکھےگا۔
یہ سب کچھ صرف فن کے نام پر ہو رہا ہے لیکن اس سے ہونے والی تکلیف بھی کچھ کم نہیں۔ وفا نے بی بی سی کو بتایا کہ 'مجھے نمکین پانی اور گرم تولیوں کی مدد سے اس کا باقاعدگی سے خیال رکھنا پڑتا ہے'۔
کیمرے کی تنصیب کے بعد وفا کے لیے روزمرہ کے کام جیسا کہ غسل کرنا بھی کچھ مشکل ہوگئے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ جلد ہی انہیں پانی کے اثرات سے محفوظ کیمرہ مل جائے گا لیکن اس وقت تک انہیں ایک شفاف ٹوپی سے کام چلانا پڑے گا۔
یہی نہیں بلکہ فضائی سفر کے لیے ہوائی اڈے کی سکیورٹی سے گزرتے ہوئے بھی وفا کو عام لوگوں کی نسبت زیادہ وقت لگتا ہے۔
یہ منصوبہ آج کے اس 'نگران معاشرے' پر ایک تبصرے کی مانند ہے جہاں شہروں میں لوگ سکیورٹی کیمرے کی آنکھ تلے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
وفا بلال
اس سوال پر کہ ان کی گرل فرینڈ اس تجربے پر کیسا محسوس کر رہی ہے، وفا کا کہنا تھا کہ 'تاحال وہ بہت سمجھداری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس نے اب تک ہماری زندگی کے کسی منظر کی تصویر کشی پر پابندی نہیں لگائی ہے'۔
وفا بلال نیویارک یونیورسٹی میں فوٹوگرافی کے استاد ہیں اور صرف یہی جگہ ہے جہاں وہ اس کیمرے کو استعمال نہیں کرتے تاکہ ان کے طلباء کی شناخت عام نہ ہو سکے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس تجربے میں کیوں شامل ہوئے ہیں تو ان کے پاس اس کی کئی وجوہات تھیں۔ لیکن ان میں سے ایک کا تعلق 1991 میں ان کی عراق سے ہجرت سے بھی ہے۔
وفا کے مطابق 'میرا شہر نجف بمباری کی زد پر تھا اور ہر چیز سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس وقت میری خواہش تھی کہ جو کچھ بچ گیا ہے میں اسے محفوظ کر لوں'۔
وفا نے دو سال ایک پناہ گزیں کیمپ میں گزارے جس کے بعد وہ امریکہ چلے آئے جہاں انہیں سیاسی پناہ دے دی گئی۔ ان کے خاندان کے زیادہ تر لوگ عراق میں ہی رہے اور 2004 میں ان کے بھائی حاجی ایک حفاظتی چوکی پر ہونے والے میزائل حملے میں مارے گئے۔ ان کے والد نے بیٹے کے غم میں کھانا پینا چھوڑ دیا اور جلد ہی وہ بھی انتقال کر گئے۔
اب اس منصوبے سے انہیں یہ موقع ملا ہے کہ وہ سنہ 2011 میں ان کی زندگی کا ریکارڈ رکھ سکیں گے۔
لیکن وفا کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ آج کے اس 'نگران معاشرے' پر ایک تبصرے کی مانند ہے جہاں شہروں میں لوگ سکیورٹی کیمرے کی آنکھ تلے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
انہیں اس منصوبے کے خیال کو عملی جامہ پہنچانے میں تین برس لگے۔ جہاں کئی اداروں نے ان کے اس خیال کو رد کر دیا وہیں ڈاکٹر بھی ان کے سر پر کیمرہ لگانے سے ہچکچاتے رہے۔آخرِ کار انہیں جسم گدوانے کی دکان سے یہ کام کروانا پڑا اور اپنے اصل منصوبے کو بھی کم کرنا پڑا۔
ان کا یہ منصوبہ جسے تھرڈ آئی کا نام دیا گیا ہے اب دوہا میں جدید فن کے عرب عجائب گھر کے تعاون سے جاری رہے گا۔
یہ منصوبہ قطر میں جدید فن کی پہلی نمائش میں شامل تیئیس فن پاروں یا منصوبوں میں سے ایک ہے۔تاہم اس منصوبے کے ناقدین اسے صرف ایک دکھاوا قرار دیتے ہیں اور ان کے مطابق یہ دوسرے افراد کی نجی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے۔
وفا بلال ماضی میں بھی کئی متنازعہ منصوبوں پر کام کر چکے ہیں جن میں سے ایک اپنی پشت پر عراق کا نقشہ گدوانا تھا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے منصوبے 'ڈومیسٹک ٹینشنز' کے لیے شکاگو کی ایک گیلری میں ایک ماہ تک بند رہے تھے۔
No comments:
Post a Comment