Monday, September 20, 2010

**JP** Words of a wise man........true psychology of Pakistani Nation

نواب زادہ کی گفتگو !

فائل فوٹو، نوابزادہ نصراللہ خان

آج مجھے پاکستانی سیاست کے ایک کلاسیکی کردار مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان بے انتہا یاد آ رہے ہیں۔جب وہ سن نوے میں اپنے ہی جمہوریت نواز ساتھیوں کی موقع پرستی کا شکار ہو کر غلام اسحاق خان کے مقابلے میں صدارتی الیکشن ہروا دئیے گئے تو میری نوابزادہ سے کراچی میں زندگی کی پہلی اور آخری تفصیلی ملاقات ہوئی ۔بقول نوابزادہ

' ہم بطورِ فرد اور بحیثیتِ قوم نہایت بے صبرے لوگ ہیں۔ہم نظم و ضبط پر گھنٹوں بھاشن دے سکتے ہیں لیکن قطار نہیں بنا سکتے۔قطار بنا بھی لیں تو پانچ منٹ سے زیادہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔برقرار رکھ بھی لیں تو قطار میں پیچھے کھڑے رہنے پر آمادہ نہیں ہوتے اور ہر وقت سوچتے رہتے ہیں کہ کیو کیسے جمپ کریں۔اگر ایک شخص قطار توڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اسے روکنے اور سمجھانے کے بجائے خود بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں۔ یوں قطار دوبارہ ایک بے ہنگم مجمع میں تبدیل ہوجاتی ہے۔دھینگا مشتی، ایک دوسرے پر الزام تراشی، گالم گلوچ اور مار پٹائی تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے۔

جو قوم قطار بنانے کے کلچر سے واقف نہ ہو وہاں جمہوریت تو کجا کوئی بھی نظام کامیابی سے نہیں چل سکتا۔یہی بے صبرا پن اور ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے کی خواہش ہے جس کے نتیجے میں ہم مارشل لا کے دور میں بحالی جمہوریت کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور جمہوریت آجائے تو مارشل لا کی دعائیں کرتے ہیں۔

اسی عادت اور زہنیت کی وجہ سے پاکستانی سیاست کے لینڈ سکیپ پر ہم باغ تو کجا نرسری بھی نہیں لگا سکے۔بظاہر ہمیں یہ سرزمین سرسبز دکھائی دیتی ہے۔لیکن یہ خودرو پودوں، ببول کے پیڑوں اور جھاڑ جھنکار کی سرسبزی ہے۔ہماری سیاست خانہ بدوشی کی سیاست بن گئی ہے۔خانہ بدوش باغ میں گھومنے پھرنے کا شوقین تو ہوسکتا ہے پر اپنا باغ نہیں لگا سکتا۔

پاکستان بننے کے بعد سے آج تک کم از کم میرا تجربہ تو یہی ہے کہ جب بھی ہم بہت محنت کر کے جمہوریت کا پودا لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے تن آور ہونے کا انتظار نہیں کرتے۔نہ بروقت پانی دیتے ہیں۔نہ اس کے آس پاس کی زمین صاف رکھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔نہ گوڈی کرتے ہیں ۔نہ اس پودے کو ہر شے پر منہ مارنے والے آوارہ جانوروں سے بچانے کے لیے اردگرد لوہے یا سرکنڈے کا جنگلہ لگاتے ہیں۔نہ اسے دھوپ ، بارش یا شبنم سے بچانے کا انتظام کرتے ہیں۔بلکہ خود روزانہ اکھاڑ کر دیکھتے ہیں کہ پودے نے جڑیں پکڑیں یا نہیں پکڑیں۔ جب وہ مرجھانے لگتا ہے تو اسباب پر غور کرنے کے بجائے الٹا سارا الزام پودے پر ڈال دیتے ہیں۔دیکھیں جی ہم نے تو لگا دیا تھا اس پودے کو۔ اب یہ خود ہی پھل پھول نہیں رہا تو ہم کیا کریں۔کوئی کہتا ہے کہ یہ زمین ہی اس قابل نہیں ہے کہ اس میں پودا لگ سکے۔چلو جی اس کی جگہ کوئی اور پودا لگا کر دیکھتے ہیں۔

اسی عادت اور زہنیت کی وجہ سے پاکستانی سیاست کے لینڈ سکیپ پر ہم باغ تو کجا نرسری بھی نہیں لگا سکے۔بظاہر ہمیں یہ سرزمین سرسبز دکھائی دیتی ہے۔لیکن یہ خودرو پودوں، ببول کے پیڑوں اور جھاڑ جھنکار کی سرسبزی ہے۔ہماری سیاست خانہ بدوشی کی سیاست بن گئی ہے۔خانہ بدوش باغ میں گھومنے پھرنے کا شوقین تو ہوسکتا ہے پر اپنا باغ نہیں لگا سکتا۔

باغ لگانے کے لیے تو ٹھراؤ اور اخلاص چاہیے۔محنت درکار ہے۔دور اندیشی کی ضرورت ہے۔آئندہ نسلوں کے فائدے کا جذبہ ضروری ہے۔ہماری آنکھ آنے والا کل تو کجا آج کا دن بھی پورا نہیں دیکھ سکتی۔ہم صرف لمحہ موجود میں جینا چاہتے ہیں۔خانہ بدوشوں کی طرح جہاں پانی اور سبزہ دکھائی دے وہیں خیمہ لگا لیتے ہیں۔ جیسے ہی موسم بدلتا ہے تو اس کی سختی جھیلنے اور ثابت قدمی سے ایک ہی جگہ ٹکے رہنے کے بجائے نئے چارے اور منظر کی تلاش میں آگے بڑھ جاتے ہیں اور اکثر خود کو پھر سے ایک صحرا میں پاتے ہیں۔پھر پچھتاتے ہیں مگر پھر وہی کرتے ہیں۔سب کچھ بدلنا چاہتے ہیں بس اپنی عادتیں نہیں بدلتے۔تو یہ سلسلہ ملک بننے کے بعد سے یونہی چل رہا ہے ۔ جانے کب تک چلے۔۔۔۔'

نواب زادہ نصراللہ خان کی بیس برس پرانی گفتگو آج بھی اتنی ہی تازہ لگتی ہے۔ان بیس برسوں میں بس ایک تبدیلی آئی۔اب ایسی گفتگو کرنے والا بھی نہیں ملتا۔۔۔




--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197

No comments:

Post a Comment