Tuesday, July 31, 2012

**JP** ایک سچی آپ بیتی۔قسط دوم۔ آزمائش کا آغاز

قسط دوم:-آزمائش کا آغاز
جنوری۲۰۰۲ء کی دوسری تاریخ تھی۔صبح کا وقت تھا۔ پاکستان میں نئے سال کی آمد کی تقریبات ختم ہو چکی تھیں۔میں اپنے گھر میں افرادِ خانہ کے ساتھ معمول کی باتوں میں مصروف تھا۔موضوع گفتگو وہ افغان بھائی تھے جو پناہ کی تلاش میں دوستم جیسے بے رحم انسان کے ہاتھ لگ گئے تھے۔میں ان کی رہائی کے لیے رابطوں میں مصروف تھا لیکن خود اپنی تقدیر سے بےخبر تھا کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔
صبح کے آٹھ بجے تھے کہ میرے گھر کی سیکورٹی پر مامور افراد نے خبر دی کہ چند افراد جو اپنا تعارف پاکستان کے حکومتی اہلکار کی حیثیت سے کرارہے ہیں، ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ میں فوراً مہمان خانے میں گیا جہاں تین افراد بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک پٹھان تھا جس نے اپنا نام گلزار بتایا جبکہ دیگر دونوں افراد اردو بولنے والے تھے۔ میں نے ان تینوں سے فرداً فرداً مصافحہ کیا ، حال احوال پوچھا اور تشریف رکھنے کا اشارہ کیا۔پھر انتظار کرنے لگا کہ کون سا مقصد لے کر یہ اہلکار میرے گھر آئے ہیں۔
ان میں سے ایک فرد جس کی ظاہر شکل سے تعصب اور نفرت کا اظہار ہورہاتھا، ساتھ انتہائی بدشکل بھی تھا۔ کالا کلوٹا، موٹے بھدے ہونٹ، بہت بھاری توند، یوں گویا ہوا
"your excellency! you are no more excellency."
ان الفاظ سے دشمنی اور نفرت ٹپک رہی تھی۔ ایسے الفاظ مصیبت کی اس گھڑی میں کوئی بے وقوف ہی ادا کرسکتا ہے یا ایسا شخص جو انتقام لینے کے ساتھ ساتھ طنز کے تیر بھی چلانا چاہتا ہو۔۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا "آپ جانتے ہیں کہ امریکہ اس وقت سُپر طاقت ہے ، پاکستان جیسا کمزور ملک اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اس کی بات ماننے سے انکار کرسکتا ہے ۔ اس سپر طاقت کو آپ کی ضرورت ہے تا کہ آپ سے کچھ تحقیقات کر سکے۔ ہم آپ کو گرفتار کرنے اور امریکہ کے حوالے کرنے آئے ہیں تاکہ امریکی ہم سے خوش ہوسکیں اور پاکستان کو کوئی گزند نہ پہنچے"۔
میں نےجواب دیا:"آپ کی بات درست ہے کہ امریکہ ایک سپر طاقت ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے معاملات چلانے کے لیے کچھ مسلمہ قوانین اور اصول موجود ہیں۔ آپ کن اسلامی، غیر اسلامی یا بین الاقوامی اصولوں کے تحت یہ سلوک کررہے ہیں؟کن قوانین کے تحت آپ مجھے امریکہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں؟آپ صرف یہ حق رکھتے ہیں کہ مجھے ایک مقررہ وقت کے اندر پاکستان چھوڑنے کا کہ دیں۔ اس سے زیادہ آپ مجھ سے نہ کسی حکم کی تعمیل کرا سکتے ہیں اور نہ قوانین و مسلمہ اصولوں سے بالاتر سلوک کرسکتے ہیں"۔
لیکن اس بدشکل اہلکار اور امریکی غلام نے بہت توہین آمیز لہجے میں کہا:"اس وقت ہماری نظر میں نہ اسلام کی کوئی اہمیت ہے اور نہ کسی قانون و اخلاقی قدرکی۔ صرف پاکستان کے مفادات اہمیت کے حامل ہیں اور بس"۔
میں نے جب ان کے اس سلوک اور حالت کا جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ دلائل دینااور بحث کرنا ایک لاحاصل مشق ہے ۔ اس لیے دھیمی آواز میں کہنے لگا:"جو کچھ آپ کی مرضی ہے کر گزریں۔ ہم آ پ کی گرفت میں ہیں اور کوئی دوسرا راستہ اور اللہ کے سوا کوئی سہارا نہیں ہے۔ اسی کی ذات پر توکل کرتے ہیں"۔
مجھے ۱۲ بجے تک گھر ہی میں رہنے کا حکم دیا گیا۔ بعد میں پشاور منتقل کیا جاناتھا۔ میرا گھر چاروں طرف سے محاصرے میں تھا اور نکلنے کا کوئی بھی راستہ کھلا نہیں تھا۔ کسی بھی حلقے سے مدد کی امید نہیں تھی۔ پھر بھی پاکستانی وزارتِ خارجہ سے بذریعہ ٹیلیفون رابطہ کیا لیکن وہاں کے ذمہ داروں نے کوئی جواب دینے سے گریز ہی بہتر سمجھا۔

No comments:

Post a Comment