Tuesday, July 31, 2012

**JP** سچی آپ بیتی۔ قسط سوم مع تعارف۔ اژدھا کے منہ میں چار سال

تعارف
یہ سچی آپ بیتی دراصل پاکستان میں مامور امارتِ اسلامیہ افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی خود نوشت دا گوانتانامو انحئور  کا اردو ترجمہ  ہے جس میں انھوں نے اپنے اغواءاور بدنامِ زمانہ امریکی اذیت گاہ گوانتاناموبے کا حال تفصیل سے بیان کیا ہے۔اس میں انھوں نے حکومتِ وقت کے غیر قانونی اور غیر سفارتی اقدامات بیان کرتے ہوئے اپنے اخراج کی حقیقت اور تفصیل سے آگاہ کیا ہے اور بزعم خود انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردارامریکہ کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔مصنف نے چار سال اس اذیت گاہ میں بدترین تشدد برداشت کرتے ہوئے گزارے جس کا سلسلہ پاکستان ہی میں پشاور ائر پورٹ سے شروع ہوگیا تھا۔ چار سال بعد ۲۰۰۶ء میں ان کو تحریری اقبالِ جرم اور معافی مانگنے کی شرط پر رہائی کی پیش کش کی گئی جس سے انھوں نے انکار کردیا۔ بالآخر ان کے اپنی مرضی سے تحریر کیے گئے بیان کے بعد ان کو رہا کرکے افغانستان بھیج دیا گیا جہاں وہ موجودہ افغان حکومت کی زیرِ نگرانی اپنے گھر میں رہ رہے ہیں۔ اپنے پیش لفظ میں انھوں نے واضح طور پر پاکستانی عوام کی برادرانہ محبت اور تعاون کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے ۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ محترم عبدالصمد صافی نے "اژدھا کے منہ میں چار سال " کے نام سے کیا ہے۔محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خط کی نقل بھی اس ترجمے کے ساتھ شامل کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ مصنف کی صدرِ پاکستان محمد رفیق تارڑ کو اسنادِ سفارت پیش کرتے ہوئے، ان کے بطورسفیر مختلف سرکاری تعارفی کارڈ اور امریکی اذیت گاہوںمیں تشد د کے مناظر کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
قسط سوم:  ڈالروں کی خاطر میرا اغواء
گھر سے کہیں اور منتقل کرنے سے پہلے ان اہل کاروں نے بتایاکہ ہم آپ کو پشاوار منتقل کررہے ہیں۔ وہاں آپ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ صرف امریکی آپ سے تحقیقات کریں اور ہوسکتا ہے کہ ہفتہ دس دن بعد آپ واپس اپنے گھر آجائیں۔ اسی طرح کی بات انھوں نے میرے اہلِ خانہ سے بھی کہ کر مطمئن کردیا۔ یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ جب تک میں ان کی تحویل میں رہوں گا، میرے گھر والوں کے لیے جائے رہائش فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مالی اعانت بھی کریں گے۔ لیکن یہ سب کچھ ایک واہمہ ثابت ہوا۔ گرفتاری کےوقت میرے پاس دس مہینے کے لیے پاکستانی ویزہ اور خارجہ امور کا وہ رسمی خط بھی موجود تھا جس میں مذکور تھا کہ اس خط کا حامل اس وقت تک پاکستان میں رہ سکتا ہے جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا وہ خط بھی موجود تھا کہ یہ ایک اہم شخصیت ہے ۔ان کے ساتھ احترام کا سلوک کیا جائے۔ لیکن اس سب کے باوجود میرے ساتھ انتہائی حقارت آمیز سلوک کیا گیا۔
          سوا بارہ بجےتین گاڑیاں میری رہائش گاہ کے سامنے آکر رکیں۔ تمام راستے بند کیے۔ حتّٰی کہ کسی صحافی کو بھی آگے نہیں آنے دیاگیا تاکہ وہ یہ مناظر فلماکر دنیا کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو دکھا نہ سکیں۔ ان کو محض ایک جھلک دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ ان تمام انتظامات کے بعد مجھے گھر سے باہر آنے کے لیے کہ دیا گیا۔
          میں اس حال میں گھر سے نکلا کہ میرے بچے چیخیں مار مار کر رو رہے تھے۔انسانی حقوق،بین الاقوامی قوانین، جمہوری اقدار اور میرے سفارتی حقوق سب پاوں تلے روندے جا رہے تھے۔ میں اہل کاروں کے ساتھ گھر سے نکلا تو یہ حوصلہ بھی نہیں تھا کہ مڑ کر اپنے گھر اور بچوں پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال سکوں۔ میں بالکل بے بس تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس پوری دنیا میں کوئی فرد،قانون،پارٹی،ریاست ایسی نہیں جو اس ظلم کا راستہ روک سکے۔روکنا تو درکنار،صدائے احتجاج بلند کرنے والا کوئی نہیں تھا۔میں شفقت کےد و بول بول کر بھی اپنے بچوں کو تسلی نہ دے سکا۔
          میں درمیان والی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ سیکورٹی والوں کی ایک گاڑی آگے اور ایک ہمارے پیچھے آرہی تھی۔ سیاہ شیشوں والی اس گاڑی سے باہر کوئی نظر آرہا تھا اور نہ باہر سے مجھے کوئی دیکھ سکتا تھا۔آئی ایس آئی کے چند اہل کار بھی ساتھ تھے۔ یہ غیر مسلح تھے لیکن باقی دو گاڑیوں میں تمام اہل کار مسلح تھے۔ تمام راستے گاڑی میں لگے ٹیپ ریکارڈر سے اردو گانے بجائے جا رہے تھے۔ شاید اس کا مقصد مجھے ذہنی اذیت دیناتھا۔ کیونکہ میں یہ کام خلافِ شریعت سمجھتا تھا۔
          نماز قضا ہورہی تھی اس لیے میں  نے بار بار تقاضا کیا کہ مجھے نماز اداکرنے کی اجازت دی جائے لیکن ان پر کوئی دلیل اور درخواست کارگر ثابت نہ ہوئی۔نہ مجھے نماز پڑھنے دی اور نہ خود نماز کی طرف توجہ دی۔ میری ہر قسم کی منت سماجت کے جواب میں صرف ایک ہی جملہ دہرایا جاتا رہا کہ پشاور جا کر تسلی سے نماز پڑھیں گے۔
باقی آئندہ
قسط چہارم:پشاورمیں  قید

No comments:

Post a Comment