زندہ قومیں اپنی تاریخ اور ثقافت کو زندہ رکھتی ہیں اور باوجود بہت سی برائیوں کے پاکستانیوں کی اکثریت اپنے تاریخی ورثے سے محبت کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر یہ گلہ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم تاریخی عمارات اور اپنے ورثے کی وہ حفاظت نہیں کر رہے جو کرنی چاہیے۔ لیکن اسلام آباد ، جہاں اپنے اندر بہت سے راز سموئے ہوئے ہے جہاں ہمارے حال اور مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں وہاں ایک جگہ ایسی بھی ہے جس نے ہماری آزادی کی تحریک کو اپنے اندر بہت خوبصورتی سے سمویا ہوا ہے ۔ جہاں جاکر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ اور اس کے خم و پیچ کو بھلا یا نہیں ہے ۔ پچھلے دنوں مجھے یاد گار پاکستان اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا جو کہ لوک ورثہ کا ایک ادارہ ہے یہاں میں نے اپنی تاریخ بلکہ حال کو ایک چھت کے نیچے انتہائی احتیاط سے جمع دیکھا اور اپنے بچوں کو بھی دکھایا جنہوں نے اپنی عمروں کے مطابق اس میوزیم میں موجود تمام نوادرات اور تاریخ کے تمام حقائق کو انتہائی دلچسپی اور حیرت کے ساتھ دیکھا اور میری خواہش ہے کہ ہر پاکستانی جس کی اس یادگار تک پہنچ ہے ضروراسے اپنے بچوں کو دکھائے تاکہ آنے والی نسلوں کا ہم پر کوئی قرض نہ رہے اور یہ قرض ہمیں ہر صورت میں چکا نا ہے ورنہ تاریخ کسی کو تاہی کو کسی صورت معاف نہیں کرتی۔ یادگار پاکستان کی عمارت کے پاس سے گزر تے ہوئے میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہاں ہمارا اتنا خوبصورت اثاثہ اور خزانہ محفوظ ہے۔
برصغیر دنیا کے زرخیز ترین خطوں میں سے ہے اور اسی لیے تاریخ کے ہر دور میں مختلف تہذیبوں کامسکن رہاہے یہ تہذیبیں یہاں خوب پھلی پھولیں اور اپنے عروج پر پہنچی تاہم اسی زرخیز ی ،آب وہوا کی موافقت اور وسائل کی فراوانی نے اسے ہر طالع آزما کے لیے انتہائی پر کشش بناکر رکھا اور یہی وجہ ہے کہ ایک کے بعد دوسری قوم آتی رہی اور نئی تہذیبیںپنپتی رہیں ۔ مسلمان یہاں پہلی بار حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں مکران میں داخل ہوئے تاہم تاریخ میں مسلمانوں کی پہلی باقاعدہ آمد 712 ئ میں سترہ سالہ نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم کی سرگردگی میں ہوئی اور ان تمام ادوار کو بڑی خوبصورتی سے اس میوزیم میں محفوظ کیا گیاہے ہندومت ، بدھ مت اور مسلمانوں کی آمد کو مجسموں کے ذریعے اسی زمانے کے ماحول کے مطابق جس طرح دکھایا گیا ہے ایک بار تو آپ خود کو اسی زمانے میں محسوس کرتے ہیں مختلف مسلمان ادوار کو بھی بڑی خوبصورتی سے مجسم کیا گیا ہے اور آپ کو یہاںغزنوی ، غوری، لودھی اور بابر سبھی اپنی کہانی خود سنارہے ہیں۔ انگریز کی آمد اور حکومت کے ہر منظر کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اقبال اور قائداعظم کی ذاتی یاد گاروں کے لیے الگ گوشے مخصوص ہیں۔ مسجدِ قرطبہ جس نے کئی سو سال تک اللہ اکبر کی صدا اور ایک سجدئہ مومن کے لیے انتظار کیا تھا اور یہ اعزاز مسلمانان عالم میں اقبال کے نصیب میں لکھا گیا تھا کہ سپین کی وادیوں میں گونجی اذان اسکی، اور اس عظیم مسجد میں اسی بندئہ مومن کی پیشانی نے وہ سجدہ کیا کہ جس سے زمین ہل جاتی ہے یہ خوبصورت منظر، اقبال کے ہاتھ کے لکھے ہوئے مخطوطے، انکی شاعری اور میزانیے سب کچھ عاشقانِ اقبال کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں ۔ اسی طرح قائداعظم کی ذاتی اشیائ اور جسمانی طور پر اس فردناتواں کے عزم و ہمت سے بھر پور فیصلوں کے لمحے اور جدوجہد کی داستان یوں مجسم کی گئی ہے کہ اصل کا گمان ہوتا ہے ۔ گول میز کانفرنس، مذاکرے اور مشنز کو تمام جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے۔
پاکستان آزادی کے بعد بھی مشکل ترین حالات اور کٹھن ترین مسائل سے گزراہے اور گزر رہاہے لیکن اس کے باوجود ترقی کے کئی مراحل بھی طے ہوئے جسے کہیں تصویروں کی زبانی اور کہیں مجسم کرکے دکھایا گیا ہے۔ یہاں ایک آڈیٹوریم بھی موجود ہے جو پاکستان کی کہانی کا کوئی نہ کوئی پہلو دکھاتا رہتا ہے ۔ پاکستان کے شعرائ و اُدبائ بھی دنیائے ادب میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیںاور بقول اقبال شاعر رنگیں نو اہے دیدئہ بینائے قوم، اس یادگار میں انکو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ۔ حفیظ جالندھری کے ہاتھ کا لکھا ہوا قومی ترانہ دیکھنے والے کے لیے کسی تبرک سے کم نہیں، تقریباَ تمام قابل ذکر شعرائ و ادیب اپنے فن پاروں کی صورت میں یہاں نظر آتے ہیں، سائنس ، کھیل ، طب، صنعت، فوج اور فوجی معرکے غرض ہر شعبے کو یہاں محفوظ کیا گیا ہے ۔ یہ یادگار ایک خوبصورت کاوش اور عظیم قومی خدمت ہے ۔ لیکن دکھ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بہت سے باخبر لوگ بھی اس سے بے خبر ہیں کہ شکر پڑیاں کے دامن میں فن اور تاریخ کا اتنا بڑا خزانہ موجود ہے اور نہ ہی ہمارا ہر دم باخبر میڈیا اس کو وہ اہمیت دے رہا ہے جو وہ مادام تسائو کے عجائب گھر میں رکھے جانے والے ایک ایک مومی مجسمے کو دیتا ہے چاہے وہ کرینہ کپور کا ہی کیوں نہ ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی نوجوان نسل کو اپنی تاریخ بتائی اور دکھائی جائے تاکہ وہ اس ملک کی قدر و قیمت سے آگاہ ہو سکیں اپنے رہنمائوں کی جانفشانی اور سیاسی بصیرت پر فخر کر سکیں۔ میں نے یہاں کئی نوجوانوں کو یادگار کی عمارت کے ساتھ تصویریں کھینچتے ہوئے دیکھا لیکن پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس عظیم عمارت کے الگ الگ پنکھڑی نما ستون کس چیز کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ نوجوان نسل کی تعمیروتخریب ہماری کوششوں کی مرہونِ منت ہے۔ یادگار پاکستان جیسے منصوبے یقینا انہیں اپنی تاریخ سے بیگانہ نہ ہونے دیں گے۔