Saturday, April 16, 2011

**JP** Where is democracy.....?

(امریکی امداد سے اٹھنے والی عوامی تحریکیں)

نیویارک ٹائمز نے عالمی خبروں کے صفحے پرجس رپورٹ کو ٹاپ اسٹوری کے طور پر پیش کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ عرب ممالک میں جمہوریت کے لیئے اٹھنے والی تحریکوں کو منظم کرنے میں امریکی گروپس نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔اخبار نے مصر بحرین اور یمن میں جمہوری آزادیوں کے لیئے کام کرنے والی تنظیموں اور افراد کے نام بھی شائع کیئے ہیں جنہوں نے عرب ملکوں میں آمریتوں کے خلاف  عوامی ردعمل پیدا کرنے میں کردار ادا کیا ہے ۔اخبار کے مطابق ان تنظیموں اور افراد نے یہ کام امریکی تھنک ٹینکس''انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ''،''نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ'' اور فریڈم ہائوس کی مدد سے کیا ہے ۔ جنہوں نے عوامی تحریکیں فراہم کرنے کے لیئے مالی اور فکری مدد فراہم کی ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ غیرملکی فوجی مہمات اور ملٹری پروگرامز پر اربوں روپے خرچ کر رہا ہے ،مگر امریکی اداروں نے بہت معمولی مالی اور ذہنی وسائل لگا کر زیادہ بڑے مقاصد حاصل کیئے ہیں ۔ مذکورہ بالا تھنک ٹینکس کو مالی امداد امریکی کانگریس فراہم کرتی ہے ۔

 

( بحرین کی عوامی تحریک کیوں ناکام ہوئی)

لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے عالمی خبروں کے صفحے پر بحرین میں حکومت کے خلاف اٹھنے  والی تحریک کی ناکامی سے متعلق رپورٹ شائع کیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک کی ناکامی کی وجہ اس کا فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرجانا ہے ۔رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ اگر  صرف یہ محسوس ہوتا کہ مظاہرین صرف جمہوری آزادیوں اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیئے دارالحکومت مناما کے پرل اسکوائر پر جمع ہورہے ہیں ۔مگر ٕمظاہروں میں صرف شیعہ آبادی کی شرکت سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ وہ صرف سنی حکمرانوں کے مخالف ہیں ۔ جس سے اس عوامی رد عمل  سے نمٹنا بحرین کی حکومت کے لیئے آسان کر دیا ۔جبکہ جوش انتقام سے سنی آبادیوں اور پولیس اہلکاروں پر حملوں سے بھی تحریک کو نقصان پہنچا ۔

 

( ایران کرزئی کی وفاداری کا خریدار)

امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز نے عالمی خبروں کے صفحے پر افغانستان کے سابق وزیر خارجہ اور روس کے خلاف لڑنے والے تاجک کمانڈر کے ساتھی عبداللہ عبداللہ کا انٹرویو شائع کیا ہے ۔ جس میں  عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے  کہ ایران دو ہزار تین سے افغان صدر حامد کرزئی  کو اپنا اتحادی بنائے رکھنے کے لیئے خطیر مالی امداد فراہم کر رہا ہے ۔اخبار کے مطابق یہ سلسلہ اس وقت کے ایرانی صدر محمد خاتمی کے دور میں شروع ہوا تھا جو تاحال جاری ہے ۔ جس کا مقصد افغانستان میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھانا ہے ۔ دوہزار ایک میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے لیئے ایران  اور روس نے کھل کر شمالی اتحاد کی مدد کی تھی ۔مگر پشتونوں میں ایران کے لیئے پائی جانے والی نا پسندیدگی کی وجہ سے تہران کا اثر و رسوخ ہرات ریجن سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے ۔

No comments:

Post a Comment