مسئلہ فلسطین اور فریڈم فلوٹیلا |
مسئلہ فلسطین ایک طویل عرصے سے دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے ۔ اس مسئلے کے ایک فریق فلسطینی، عرب اور مسلمان ہیں اور دوسرے فریق اسرائیل کے یہودی اور مغربی طاقتوں کی معیشت، میڈیا اور سیاست پر چھائے ہوئے صیہونی ہیں ۔ اس مسئلے کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ فوجی محاذ ہو یا زمین پر قبضے کا معاملہ، پروپیگنڈا کی جنگ ہو یابین اقوامی سیاست کا میدان ہر جگہ دوسرے فریق کو مسلسل کامیابیاں ملی ہیں ۔ تاہم ہمارے نزدیک سب سے بڑ ا سانحہ یہ ہے کہ پچھے ساٹھ برسوں میں عرب اور مسلمان رفتہ رفتہ اس میدان میں بھی پیچھے ہٹتے چلے گئے جہاں وہ پہلے دن سے بہت مضبوط تھے ۔ یعنی اصولی اور اخلاقی میدان۔
یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ فلسطین میں یہودیوں کی پہلے دن ہی سے کوئی اخلاقی حیثیت نہیں تھی۔ ان کا یہ مقدمہ کہ دو ہزار برس قبل انھیں جس سرزمین سے نکالا گیا تھا، اُنھیں اس سرزمین میں دوبارہ لوٹنے کا حق ہے ، نیشنلزم کے دور میں ایک باطل مقدمہ تھا۔ جس یہودی قوم کو فلسطین سے نکالا گیا تھا وہ اور ان کی آل و اولاد عرصہ ہوا ختم ہو چکی تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اسرائیل کے قیام سے قبل دنیا بھر میں برطانوی، جرمنی، امریکی اور دوسری قومیتوں کے یہودی پائے جاتے تھے ۔ ان کو یہ حق ہی نہیں تھا کہ ایک دوسری قوم (فلسطینی عرب) کے ملک پر قبضہ کریں ، اس قوم کو وہاں سے نکالیں اور اپنی قومیت چھوڑ کر زبردستی ایک مردہ قومیت کو قبر سے نکال کر زندہ کریں ۔ تاہم اپنی معاشی طاقت اور مغربی طاقتوں پر اپنے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر یہودی ایسا کرنے میں کامیاب رہے ۔
تاہم دورِ جدید میں اخلاقی طاقت اتنی اہم ہو چکی ہے کہ یہودیوں نے اپنے باطل مقدمے کو ہولوکاسٹ کے قتل عام کے ایک لایعنی جواز کو بنیاد بنا کر اخلاقی مضبوطی دینے کی کوشش کی۔ اسی طرح عربوں کی عددی اکثریت میں گھری اپنی اقلیت اور قیامِ اسرائیل کے بعد پڑ وسی عرب ریاستوں کے فوجی حملے کو بھی اپنی مظلومیت کا کیس بنا کر اخلاقی محاذ پر اپنا مقدمہ مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے اسرائیل کے اس کمزور مقدمے کو عربوں نے خود ہی تقویت دینا شروع کر دی۔ انھوں نے یہ سمجھے بغیر کہ ان کا سابقہ اسرائیل کے یہودیوں سے نہیں بلکہ دنیا بھر کے صیہونیوں اور امریکہ جیسی سپر پاور سے ہے مسئلہ فلسطین کو فوجی طریقے سے حل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ پے در پے فوجی شکستوں کے بعد عرب ریاستیں تو پیچھے ہٹتی چلی گئیں ، جبکہ خود فلسطینیوں نے تنظیمِ آزادیٔ فلسطین کی شکل میں مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ امریکہ اور اسرائیل نے جب اس جدوجہد کو بھی کچل دیا تو القاعدہ اور دیگر مسلمان تنظیموں نے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف مڈل ایسٹ اور دنیا بھر میں مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا۔ اس کا نتیجہ بھی اتنا ہی منفی نکل رہا ہے اور اب دنیا بھر میں مسلمانوں پر دہشت گرد ہونے کا لیبل لگ چکا ہے اور اسرائیل کی دہشت گردی پس پشت چلی گئی ہے ۔ یہ ایک نادانی پر مبنی راستہ ہے جس پر مسلمان جتنا دور جا رہے ہیں ، اتنا ہی اسرائیل طاقتور ہوتا چلا جا رہا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی تنازع میں ایک کمزور فریق کے لیے سب سے بھیانک راستہ مسلح جدوجہد کا ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی کمزوری کی بنا پر ہمیشہ طاقتور سے مار کھاتا ہے اور طاقتور اس کے ہتھیار اُٹھانے کے عمل کو اپنے ہر ظلم کا ایک جواز بنا کر پیش کرتا ہے ۔ یہی فلسطین میں ہوا ہے ۔ عرب اسرائیل تنازع میں عرب اور مسلمان فوجی و حربی، سائنس و ٹیکنالوجی، میڈیا و سیاست غرض ہر میدان میں کمزور ہیں ۔ ایسے میں ان کے پاس واحد راستہ یہ تھا کہ وہ اپنا مقدمہ پرامن انداز میں اخلاقی بنیادوں پر لڑ یں ۔ اس راستے کے نتیجے میں یقینا یہ ممکن نہیں تھا کہ اسرائیل کا خاتمہ ہوجاتا یا یہودی فلسطین سے نکل جاتے ، مگر یہ لازمی تھا کہ فلسطین میں فلسطینیوں کو ایک آزاد، پرامن اور خودمختار ریاست مل جاتی، یروشلم پر عربوں کا اقتدار ہوتا اور ان کی ریاست بہت بڑ ی ہوتی۔ مگر بدقسمتی سے اسرائیل کے مکمل خاتمے کی خواہش میں عربوں نے مسلح جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیا، اس کے نتیجے میں اسرائیل کا رقبہ بڑ ھتا گیا اور فلسطینیوں کی حالت زار خراب ہوتی گئی۔ اب حال یہ ہے کہ عرب اسرائیل کے وجود کو عملاً تسلیم کر چکے ہیں اور جو نہیں کر رہے وہ بھی سن 67 سے قبل کی پوزیشن پر چلے جانے پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے پر تیار ہیں ۔ مگر اب اس کا امکان بھی بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ کیونکہ 9/11 کے سانحے کے بعد مسلح جدوجہد دہشت گردی قرار پا چکی ہے اور مسلمانوں کا کیس اخلاقی سطح پر بھی بہت کمزور ہو گیا ہے ۔ جس کی آڑ میں اسرائیل فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ۔ اب تو بات یہاں تک آ گئی ہے کہ غزہ کے مسلمانوں کو کم از کم جینے کا حق تو مل جائے ۔
اس سلسلے میں حال ہی میں ترکی نے فریڈم فلوٹیلا کی شکل میں پرامن انداز میں غزہ کے مسلمانوں کی مدد کا جو راستہ اختیار کیا ہے ، اس نے ایک دفعہ پھر مسلمانوں کا کیس اخلاقی سطح پر بہت مضبوط کر دیا ہے ۔ ترکی کی ایک غیرحکومتی تنظیم نے دنیا بھر کے چالیس ممالک کے چھ سو افراد کو جن میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور خود یہودی بھی شریک تھے ، غزہ کے مظلوموں کی مدد کے اس عمل میں شامل کیا۔ گرچہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے نو قیمتی جانوں کا نقصان ہوا، لیکن اس پرامن جدوجہد کے نتیجے میں اسرائیل کو اپنی اور اپنے حلیفوں کی ساری طاقت کے باوجود طویل عرصے بعد سیاسی اور سفارتی محاذ پر ایک شکست ہوئی ہے ۔ یہ پرامن جدوجہد اگر حکمت کے ساتھ جاری رہی تو جلد ہی اسرائیل غزہ کا محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہوجائے گا۔
ترکی کے اس اقدام کے بعد اگر مسلمان مسلح تنظیموں نے کوئی حماقت نہیں کی تو قدرت فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے ایک اور موقع پیدا کرے گی۔ جس میں یہ ممکن ہو گا کہ پرامن ڈائیلاگ کے بعد آئیڈیل کے بجائے پریکٹل کے اصول پر مسئلہ فلسطین کو حل کر لیا جائے ۔ نتیجتاً فلسطینیوں کا اپنا ایک آزاد وطن ہو گا جہاں وہ پرامن انداز میں رہ سکیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی اگر مسلمان سیاست سے اوپر اٹھ کر اپنی دعوتی ذمہ داریاں پوری کرنا شروع کر دیں تو یہود پر اتمام حجت ہوجائے گا۔ ان کے سلیم الفطرت لوگ اسلام قبول کر لیں گے اور باقی ماندہ مجرموں کے ساتھ وہی کچھ ہو گا جس کا قرآن کریم میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے یعنی خداوندِ دوعالم کے بدترین عذاب کا وہ شکار ہوجائیں گے ۔ اس کے بعد فلسطین اور یروشلم بغیر کسی جدوجہد کے مسلمانوں کے قبضے میں آجائیں گے ۔
تاہم مسلمان اگر موجودہ مسلح جدوجہد کے راستے پر قائم رہے جس میں اب دہشت گردی اور معصوم انسانوں اور مسلمانوں کی جان لینے کا عمل بھی شامل ہو چکا ہے ، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اقوام عالم میں بھی ان کا مقدمہ کمزور ہوتا جائے گا اور خدا کی عدالت میں بھی یہود سے قبل مسلمان مجرم قرار پائیں گے ۔ وہ اقوام عالم سے پٹیں گے اور خدا کی رحمت ان سے روٹھی رہے گی۔ کیونکہ ختم نبوت کے بعد یہی مسلمان ہیں جن کے ذریعے سے دنیا کو حق کا راستہ ملنا ہے ۔ اگر وہی صبر چھوڑ کر ظلم و تشدد کی راہ اختیار کریں گے تو خدا کبھی ان سے راضی نہیں ہو سکتا۔ وہ یہود کو تو بلاشبہ عذاب دے گا۔ مگر ان سے قبل مسلمانوں کو ان کے اعمال کی سزا دے گا۔
مسلمانوں پر لازم ہے کہ ابھی تک جو غلطیاں ان سے ہورہی ہیں ، ان کی اصلاح کریں ۔ جو موقع قدرت اب انھیں دے رہی ہے ، اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ اسرائیل کا مقابلہ اخلاقی محاذ اور دعوتی میدان میں کریں ۔ یہی ان کی فلاح کا واحد راستہ ہے ۔ اس سے ہٹ کر ہر راستہ یہودیوں سے پہلے مسلمانوں کی تباہی کی منزل سے گزرے گا۔
جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعثِ آزار نہیں، باعثِ رحمت بن کر رہیے۔ اگلی ملاقات تک ، اللہ نگہبان۔
Wassalam & Take care
Rizwan Ahmed Rafiq Ahmed
+966-508676675
Peace be upon all of You who seek the truth
How perfect You are O Allah, and I praise You.
I bear witness that none has the right
To be worshipped except You.
I seek Your forgiveness and turn to You in repentance.
'Our Lord, give us good in this world,
And good in the hereafter, and safeguard us
From the punishment of the Fire.'
(Aameen)
(Qur'an, 2:200-201)
No comments:
Post a Comment