Sunday, July 22, 2012

**JP** اماں! بھائی کب مرے گا؟

 

اماں! بھائی کب مرے گا؟

منور راجپوت 
  عرصہ ہواایک افسانہ پڑھا تھا، یہ میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتمل گھرانے کی کہانی تھی، جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگاہوا تھا، آخر اسی حالت میں ایک روز بچوں کو یتیم کرگیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ کھانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے باربار باہر نکل کر سامنے والے سفیدمکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے، وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہورہا ہے، جب بھی قدموں کی چاپ آتی انہیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آرہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے روٹی کے کچھ سوکھے ٹکڑے ڈھونڈ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلاپھسلاکر سلادیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی ''تلاش'' کے بعد دوچار چیزیں نکل آئیں، جنہیں کباڑیے کو فروخت کرکے دو، چار وقت کے کھانے کا انتظام ہوگیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہوگئے تو پھر جان کے لالے پڑگئے، بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا، ساتویں روز بیوہ ماں خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹ کر محلے کی پرچون کی دکان پر جاکھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہوکر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نے ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نہ صرف صاف انکار کردیا، بلکہ دوچارباتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔ ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اوپر سے مسلسل فاقہ، 8سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بخار میں مبتلاہوکر چارپائی پر پڑگیا، دوادارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ تک نہیں تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جبکہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبارہی تھی، اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگاکر بولی ''اماں!بھائی کب مرے گا؟'' ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا ''میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟'' بچی معصومیت سے بولی ''ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں!'' اگر ہم اپنے پاس پڑوس میں نظر دوڑائیں تو اس طرح کی ایک چھوڑ، کئی کہانیاں بکھری نظر آئیں گی۔ بہت معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں، ہمارا معاشرہ مردہ پرست ہوچکا ہے، زندگی میں کوئی نہیںپوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی گھی لگادیا جاتا ہے تاکہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں۔ غالباً منٹو نے لکھا ہے کہ ایک بستی میں کوئی بھوکا شخص آگیا، لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا مگر کسی نے کچھ نہیں دیا، بے چارا رات کو ایک دکان کے باہر فٹ پاتھ پر پڑگیا، صبح آکر لوگوں نے دیکھا تو وہ مرچکا تھا، اب ''اہل ایمان'' کا ''جذبہ ایمانی'' بیدار ہوا، بازار میں چندہ کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دیگیں چڑھادی گئیں، یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا ''ظالمو! اب دیگیں چڑھا رہے ہو، اسے چند لقمے دے دیتے تو یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرتا۔'' پچھلے دنوں ایک تاجر نے ایک مزار پر 10لاکھ روپے مالیت کی چادر چڑھائی، جبکہ مزار کے سامنے کے محلے میں درجنوں ایسے بچے گھوم رہے ہوتے ہیں جنہوںنے قمیص پہنی ہوتی ہے تو شلوار ندارد اور شلوار ہے تو قمیص نہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فرمایا کرتے تھے تم جو چادریں قبروں پر چڑھاتے ہو اس کے زندہ لوگ زیادہ حق دار ہیں۔ ایک شخص رکے ہوئے بقایاجات کے لیے بیوی بچوں کے ساتھ مظاہرے کرتا رہا، حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی، تنگ آکر اس نے خودسوزی کرلی تو دوسرے ہی روز ساری رقم ادا کردی گئی۔ اسی طرح ایک صاحب کے مکان پر قبضہ ہوگیا، بڑی بھاگ دوڑ کی مگر کوئی سننے کے لیے تیار نہیں ہوا، اسی دوران دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے دل کا دورہ پڑا، جو جان لیوا ثابت ہوا، پولیس نے پھرتی دکھائی اور دوسرے ہی دن مکان سے قبضہ ختم کرادیا۔ فائدہ؟ کیا اب اس مکان میں اس کا ہم زاد آکر رہے گا؟ پاکستان میں دولت کی بنیاد پر طبقاتی تقسیم خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے، ہوس پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام غریب آدمی کا خون نچوڑنے کے بعد اب متوسط طبقے کو بھی پچھاڑ چکا ہے، اس معاملے پر ذرا آگے چل کر بات کریں گے، میری خواہش ہے آپ کو یہاں غریبی اور امیری کی ایک جھلک دکھا دوں تاکہ ملک میں رائج معاشی نظام کا آپ کچھ اندازہ کرسکیں۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں، جنہیں گھروں میں تیار کرکے مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے، یہاں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کے کئی گھروں میں اگربتیاں بنائی جاتی ہیں، چوںکہ اس کی تیاری میں پاؤڈر استعمال ہوتا ہے، اس لیے یہ لوگ پنکھا چلاسکتے ہیں اور نہ کھلی جگہ میں بیٹھ سکتے ہیں، یہ کیمیکل منہ اور ناک کے ذریعے ان کے جسم میں داخل ہوکر جگر اور پھیپھڑوں کے امراض کا بھی سبب بنتا ہے۔ 100اگربتیاں بنانے کا معاوضہ کچھ دن پہلے بڑھ کر 5روپے ہوا ہے، عموماً گھر کے سارے افراد مل کر یہ کام کرتے ہیں، اگر وہ زیادہ زور لگائیں تب بھی ہزار، پندرہ سو ہی اگر بتیاں بناسکتے ہیں، کیا اس مہنگائی کے دور میں اس آمدن سے گھر چلایاجاسکتا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں یہ سارا تقدیر کا چکر ہے، اس لیے پیسے کی کمی بیشی پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ ٹھیک ہے امیری اور غریبی اللہ کی طرف سے ہے، مگر اللہ نے یہ تو نہیں کہا کہ تم محنت مزدوری کے معاوضے کم اور چیزوں کو مہنگا کردو۔ اب ذرا امیری کی بھی ایک جھلک دیکھتے جائیں، ایک انگریزی روزنامے کے سنڈے میگزین میں شادیوں پر اخراجات کے حوالے سے ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق معروف صنعت کار مرزا اشتیاق بیگ سے پوچھا گیا ان کے خاندان میں شادی کتنے میں پڑتی ہے؟ ان کا کہنا تھا 5کروڑ روپے تک خرچ ہوجاتے ہیں۔ رپورٹر نے حیرت کا اظہار کیا تو بیگ صاحب بولے، میاں شادیاں دیکھنی ہیں تو چنیوٹیوں کی دیکھو، چنیوٹیوں کی۔ یعنی 5کروڑ روپے خرچ کرنے والا بھی ''احساس کمتری'' کاشکار ہے، اس سے لگتا ہے چنیوٹی صاحبان تو شاید ایک شادی پر 15، 20 کروڑ روپے خرچ کرتے ہوںگے۔ کسی دور میں ہمارا معاشرہ غریب، متوسط اور امیر طبقے پر مشتمل ہوتا تھا، مگر اب آہستہ آہستہ درمیان کا طبقہ ختم ہوتا جارہا ہے، اس طبقے کے لیے سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی مشکل ہوگیا ہے، غریب لوگوں کی مدد کے لیے تو پھر بھی لوگ متوجہ ہوجاتے ہیں مگر سفید پوشوں کا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ انہیں کھاتا پیتا سمجھتے ہیں، جبکہ یہ بے چارے انگریزی محاورے کے مطابق ''ہینڈٹو ماؤتھ'' ہوتے ہیں، اکثر لوگ جو دفاتر میں بڑے بھرم کے ساتھ آتے ہیں، کبھی ان کو تنہائی میں کریدکر دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا بندۂ مزدور کے اوقات کتنے تلخ ہیں۔ جس شخص کے پاس اپنا مکان ہو یا کرایہ دینے کی سکت رکھتا ہو، دو وقت کا مناسب کھانا اسے میسر ہو، سردی گرمی کے کپڑے، موسمی پھل خرید، بچوں کو تعلیم اور علاج معالجہ کراسکتا ہو، ضروری اخراجات کے بعد کچھ رقم پس انداز بھی کرلیتا ہو، عموماً ایسے شخص کو متوسط طبقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگر یہی سہولتیں زیادہ بہتر طور پر حاصل ہوجائیں تو وہ امیروں کی حدود میں قدم رکھ دیتا ہے۔ متوسط طبقے کو کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے، یہی معاشرے کی تہذیب وتمدن کی نمایندگی کرتے ہیں، انقلابات کی قیادت بھی ہمیشہ اسی طبقے نے کی ہے۔ متوسط طبقے کو ظالم معاشی نظام سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ حکومت کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور خود ہم کیا کرسکتے ہیں؟ اللہ نے چاہا تو اس موضوع پر اگلی کسی نشست میں بات کریں گے۔

No comments:

Post a Comment