Sunday, March 25, 2012

**JP** " " Beti بیٹی " "

 
----- Original Message -----

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

بیٹی

 

https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash4/378234_2715878948550_1604264791_31929783_1657935731_n.jpg

 

بیٹی آئی گھر میں،،،


اور چلی گئی اپنے اصلی گھر میں،،،

یہ دو تصاویر ہیں ایک تصویر میں ایک بیٹی آئی ہے
دوسری تصویر میں جا رہی ہے

 کہ بیٹیوں کو جانا ہی ہوتا ہے.

اگر ماں باپ کو اللہ تقدیر لکھنے کا موقع دیتا

 تو وہ اپنی بیٹی کی تقدیر میں
دنیا جہاں کی خوشیاں لکھ دیتے

بیٹی کیا ہوتی ہے؟

 

اللہ اور رسول صلی الله عليه وسلم

 

کی نظر میں یہ اللہ کی طرف سے رحمت ہوتی ہے.

 تمام ہی مذاہب کے لوگ ایک بات کو مانتے ہیں

 کہ رزق عورت کی قسمت میں ہوتا ہے .

مرد محنت کرتا ہے

 لیکن اپنی محنت کا پھل عورت کے نصیب کے درخت سے پاتا ہے.

میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ذیشان ہے

کہ رزق عورت کی قسمت میں ہوتا ہے.

آپ صلی الله عليه وسلم نے

 تنگدست صحابہ کو شادی کرنے کا حکم دیا

 تاکہ رزق میں کشادگی ھو .

 اور پھر واقعی لوگوں نے دیکھا کہ

ان پر رزق کی بارش ہوئی .


بیٹی کی محبت کیا ہوتی ہے؟

 

ہم سب جانتے ہیں کہ کس طرح میرے آقائے دوجہاں صلی الله عليه وسلم

اپنی پیاری بیٹی کو آتا دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے

 اور کس طرح پیشانی مبارک پر بوسہ دیا کرتے تھے.
کسی نے کیا خوبصورت بات کہی کہ بیٹا صرف اس وقت تک بیٹا ہوتا ہے

 جب تک اس کی شادی نہیں ہوجاتی اور
بیٹی اس وقت تک بیٹی رہتی ہے

 جب تک قبر کی مٹی اس کے وجود کو ہمیشہ کیلئے اپنی آغوش میں نہیں لے لیتی .

بیٹیاں الله کی رحمت ہوتی ہیں

 

مگر آج کل کے دور میں جہیز جیسی لعنت نے ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،

 جہیز ہمارے معاشرے کا ایک مہلک ناسور بن گیا ہے۔۔

اور اس کی جڑیں اس طرح مضبوط ہوگئی ہیں کہ اہل ثروت کے ساتھ ساتھ غریب بھی نا چاہتے ہوئے اس مرض کے شکار ہیں۔۔

 

اپنی جھوٹی شان و شوکت،

 

 معاشرے میں ناک اونچی رکھنے کے لئے اور بیٹی کو اپنی بہن کو سسرال میں عزت دلانے کے لئے جہیز کے نام پر اتنا کچھ دیا جا رہا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

خیال آتا ہے کہ جیسے ہم زمانہ جاہلیت میں گرتے چلے جا رہے ہوں۔
دوسری طرف غریب آدمی کی پہنچ سے نکاح جیسا مقدس بندھن بھی دور ہوتا جا رہا ہے۔

اس کی وجہ لوگوں کے اندر جہیز جیسی لعنت کا لالچ،

 زیادہ قیمتی سازوسامان کی ہوس اور حرص نے لوگوں کو بے حس کر دیا ہے۔

اس لعنت کی وجہ سے رشتوں کا لحاظ ختم ہو گیا ہے۔

جھوٹی شان و شوکت،

 

سوسائٹی میں ناک اونچی رکھنے کی خاطر کیا ہم بہت سے خونی رشتوں کا گلہ نہیں گھونٹ رہے ہیں۔

 ہم ایسا کر رہے ہیں کیونکہ کہیں ہم اونچا خاندان دیکھتے ہیں

 کہیں ہم ذات پات، قبیلے، دیکھتے ہیں،

 پر کیا یہ ساری باتیں ہندوﺅں کے لئے نہیں ہیں۔ یہ خاندان کا معیاریہ ذات، برادری یہ سارا کچھ تو ہندو کرتے ہیں۔

مسلمان تو ایسا نہیں کرتے ہیں۔

دیکھئے قرآن پاک میں

 

 کہ کل کائنات کے خالق و مالک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کیا کہتے ہیں۔

 

سورة الجرات

میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
" اے لوگو !

 بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے

 اور ہم نے تمہیں برادریاں اور قبیلے کر دیا

 تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔

بے شک اللہ کے ہاں تم میں سے زیادہ عزت والا

وہ ہے کہ جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے"۔

 

ہمیں اللہ کے ہاں عزت اور مرتبہ، اونچے

 خاندان، زمین و دولت، قبیلے اور برادریوں کی بنا پر نہیں ملنا بلکہ ہمارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہر مقام و رتبہ ملنا ہے۔

پھر ہم کن کھیل تماشوں میںخود کو برباد کر رہے ہیں۔

 یہ مایوں، مہندی، سب فضول اور ہندوﺅں کی رسمیں ہیں

میرے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے "نکاح کو نصف ایمان قرار دیا ہے"۔

 اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھیے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمۃ الزھرۃ کے نکاح مبارک میں نہ کوئی نمود و نمائش کی ہے نہ کوئی جھوٹی شان و شوکت دکھائی ہے اور نہ جہیز میں بڑا گھر دیا ہے۔؟

 بس ایک عدد جائے نماز، آٹا پیسنے والی چکی اور چند گھریلو ضرورت کی اشیاءاور مہمانوں کی خاطر کھجوروں اور دودھ سے کی گئی۔ معمولی حق مہر کی رقم، نبی صلی الله عليه وسلم کی بیٹی کی شادی اور سادگی کی منہ بولتی تصویر، ہم وہ کیوں نہیں کرتے جو ہمیں کرنے کو ہمارا اسلام کہتا ہے۔

اسلام کہتا ہے کہ سادگی اپناﺅ،

 

 زندگی کے تمام معاملات، نکاح مسجد میں کرو، ولیمہ کا اعلان مسجد میں کرو۔

 غریبوں، یتیموں، مسکینوں کو کھانا کھلاﺅ اور ہم غریبوں کو اپنی دعوتوں کے پاس سے گزرنے نہیں دیتے ہیں۔

 ہم جب تک بڑے بڑے ہوٹلز میں مہندی، بارات، ولیمہ کی تقریب نہ کر لیں ہمیں لوگ عزت دار نہیں کہتے ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں جس کے پاس پیسہ ہے معاشرے میں اسی کی عزت ہے اور اسی کے پاس ساری پاور ہے۔

 غریب چاہے روز گھٹ گھٹ کر جیتا رہے یا مرتا رہے اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ بھلے جہیز نہ لانے پر اس کی بیٹی کو زندہ جلایا جائے یا بچے چھین کر گھر سے ہی کیوں نہ نکالا جائے ہمیں اس سے کیا ہم نے تو اپنا دل خوش کرنا ہے۔

 خواہ غریب کی بیٹیاں خودکشی ہی کیوں نہ کریں۔

ہمارا کیا جاتا ہے ہمارے پاس تو پیسہ ہے ہم اپنی بہنوں، بیٹیوں کو سب کچھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جب قرآن و حدیث سے ہمیں سب سبق ملتا ہے تو پھر کیوں نہ اس کو پھیلاتے ہوئے جہیز کے
ناسور کو معاشرے سے ختم کر دیں۔

 اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔

 پہلا قدم اٹھانا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔

 اس جہیز جیسی لعنت کی شروعات ہم ہی لوگوں نے کی ہیں اور ہم ہی اس کو ختم کریں گے۔

 کوئی باہر سے مسیحا نہیں آئے گا،

 کوئی معجزہ رونما نہیں ہو گا۔

آئیں آج خود سے عہد کریں کہ ہم یہ کوشش ضرور کریں گے کہ ہم سادگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی جڑیں ہمارے معاشرے میں گہری ہو جائیں۔

آخر میں بس اتنا کہنا ہے کہ بیٹیوں کو جانا ہی ہوتا ہے.


اللہ ہر بیٹی کے نصیب اچھے کرے

اور ہم سب کو بھی

 سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

 کی پیروی میں بچیوں کی شادی

 سادگی سے کرنے کی اور ہر مسلمان کو

 خاص کر نوجوانوں کو جہیز جیسی لعنت سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے

اور ہم سب کو قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
آمین


 
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment