Tuesday, May 31, 2011

Re: {3599} Re: **JP** Re: اب بھی وقت ہے

سر آپ کی باتوں کا وزن اپنی جگہ اور ہماری قومی کوتاہیاں اور جرائم اور تباہی کیش غفلت شعاریاں بھی اپنی جگہ، تاہم مایوس و بددل ہونے اور ہمت و حوصلہ کھو بیٹھنے کی نہ مردانہ عزم و ہمت کی ڈکشنری میں کوئی جگہ ہے اور نہ ہمارے دین اسلام کی کتابِ تعلیمات میں اجازت۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ ہم نے انتہائی قیمتی تریسٹھ سال الٹی چال چلنے اور اپنی تباہی و بربادی کا سامان کرنے اور خود کو پستیوں کی نچلی ترین سطح پر پہنچانے میں لگادیے ہیں۔ تاہم یہ دنیا جن اصولوں پر قائم اور انسانی تاریخ جن حقائق کی گواہ ہے، ان کی روشنی میں زوال کو عروج آشنا ہونے اور پستی سے ابھر کر ترقی کی چوٹی پر پہنچنے کا راستہ کبھی ختم اور فنا نہیں ہوتا۔ یہ ضرور ہے کہ جو شخص جتنا پستی کی کھائی میں گہرا اترا ہوا ہو، اسے ابھرنے اور باہر آنے میں اس شخص کی بنسبت بہت زیادہ کاوش و محنت کرنا پڑتی ہے جو پستی کی بس اوپری سطح کی حد تک ہی آیا ہو۔ ایسے ہی اقوام کو اگر وہ بیدار ہوجائیں، اپنی تعمیرِ نو کے باب میں اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کے بقدر ہی دوسروں کی بنسبت زیادہ کد و کاش اور جدوجہد سرانجام دینا پڑتی ہے۔ تاہم مایوس ہونے، دل شکستگی کی گھٹنوں میں گھرجانے اور مستقبل کے بارے میں کسی بھی اچھی توقع اور امید سے بالکل ہی خالی ہوجانے کی کسی حال میں زندہ انسانوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

یقیناً ہماری نسلوں نے بہت کوتاہی برتی اور زبردست غفلت و بے حسی سے اپنی بربادی کا سامان کیا ہے مگر کیا انفرادی زندگی کے وہ کتنے ہی واقعات جو روز مرہ ہمارے ارد گرد جنم لیتے اور جن میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص اپنے پاس ڈھیلا بھی نہ رکھتا تھا مگر اس نے اپنی ہمت اور کوشش سے بالآخر خود کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور ایک باوقار حیثیت کا مالک بن گیا، ہمیں یہ سبق نہیں پڑھاتے کہ ایسے ہی قومیں اگر خوابِ غفلت سے بیدار ہوجائیں تو وہ بھی اپنی بدحالی کو خوشحالی سے بدل سکتی اور اپنی قسمت کی تاریکیوں کو اپنے عزم و ہمت سے جگمگاتی روشنیوں کا اجالا بخش سکتی ہیں۔ اور ویسے بھی اپنی قوم کے بارے میں میری یہ رائے ہے کہ اس کے ہمدرد و بہی خواہ سب کبھی بھی نہیں سوئے بلکہ بے شمار لوگ جاگتے، جھنجوڑتے اور کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ قوم نے کبھی مل کر جاگنے اور کوشش کرنے کی زحمت نہیں کی اور مزید یہ کہ صحیح معنوں میں دانش مند و مضبوط قیادت ہمارے درمیان ابھر نہ سکی۔ لیکن آج کی تمدنی و ابلاغی ترقیوں نے قومی شعور کو بڑا مہمیز کردیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ محب وطن لوگ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اس بیداری اور باخبری کی لہر کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانے اور اسے اپنی تعمیر کا آغاز بنانے کی خاطر میدانِ عمل میں اتر پڑیں۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ لوگ چھوٹے چھوٹے علاقائی سطح کے تعمیری مشن کھڑے کرکے خود کو ان کے لیے وقف کردیں۔ اس طرح کی کوششوں کے سلسلے جاری کرنے میں ہم کامیاب ہوگئے تو ہم اپنے مستقبل اور آنے والے ایام کے حوالے سے اچھے خواب دیکھنے اور بہتری و خوشحالی کی امیدیں رکھنے میں بالکل حق بجانب ہوں گے۔

ہمارے دوستوں اور بزرگوں کو چاہیے کہ وہ منفی سوچ اور مایوسانہ احساسات کی دلدل سے باہر نکلیں اور ایک نئے ترقی یافہ و مستحکم پاکستان کی تعمیر کے لیے نئی نسلوں کی قیادت و نصرت کا فریضہ سرانجام دیں نہ یہ کہ انہیں بددل و دل شکستہ اور مایوس و پژمردہ کرنے والی باتیں کریں۔



2011/5/31 Azmat Sharif <abrar44@yahoo.com>
who says we still have time?  We are drowning.  The handwriting is on the wall.   It all sounds good, but too little too late.  We cannot undo 63 years of downward spiral in our life time.  The game is over.  The destiny is not in our hands now.  Those who need to do something are not doing fast enough to be able to make a difference.

--- On Tue, 5/31/11, Isfandyar Azmat <isfi22@gmail.com> wrote:

From: Isfandyar Azmat <isfi22@gmail.com>
Subject: {3599} Re: **JP** Re: اب بھی وقت ہے
To: joinpakistan@googlegroups.com
Date: Tuesday, May 31, 2011, 2:23 AM


محترمی و مکرمی محمد اسلم خان صاحب،

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

حوصلہ افزائی کے لیے بے حد ممنون ہوں۔ آپ کی انگریزی تحریر اور اپنے چند خیالات کو لے کر میں نے اسے ذیل کے چند پوائنٹس میں سمویاہے جو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ مزید تبدیلی اور انقلاب کے حوالے سے اپنی چند تحریروں کی پی ڈی ایف بھی آپ کے ملاحظے کے لیے بھیج رہا ہوں۔

·        ہم تعلیمی و تخلیقی سرگرمیوں کو اپناکر اپنے ارد گرد منڈلاتے اور ڈیرا جماتے اندھیروں سے نجات پاسکتے ہیں۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارا فرد فرد اپنی ذمے داری کو محسوس کرے اور اس مہم کو سر کرنے کے لیے آمادہ و تیار ہوجائے۔

·        ہمیں اپنے تعلیمی نظام، تعلیمی اداروں اور ٹکنکل علوم و فنون کے مدارس کو عالمی سطح کے اعلیٰ ترین معیار کا حامل بنانا اور اس میں پڑھنے والی اپنی نوجوان نسل کو بہترین علم، بلند ترین شعور اور ممتاز و بے مثل صلاحیت و قابلیت کے مقام تک پہچانے کے ساتھ ساتھ اس میں قوم کی تعمیر و بہتری اور فلاح و خوشحالی کے لیے کام کرنے اور تن من دھن نثار کردینے کے اعلیٰ عزائم و جذبات پرونے ہوں گے۔

·        ہمارے افراد کو اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور کمیوں کا ادراک کرنا اور انہیں دور کرنے اور اُن اوصاف و خصوصیات کو اپنانے کی جدوجہد کرنا ہوگی جو قوموں کو اونچا اٹھاتے اور عالمی سطح کی قیادت و امامت کا حق دار بناتے ہیں۔ تبھی ہم اپنے ملک و ملت کو توانا بناسکیں گے اور ایک مضبوط اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکیں گے جو دوسرے اسلامی ممالک و بلاکز کو عملی و اخلاقی سپورٹ اور فکری و قائدانہ رہ نمائی دینے کی صلاحیت رکھتا ہوگا اور انہیں بھی مستحکم و خوشحال ممالک ہائے متحدہ اسلامیہ کی لڑی میں پرونے کے قابل ہوگا۔

·        اس وقت ہم بڑی گہری مصیبتوں اور انتہائی خطرناک و تشویشناک بحرانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک ہم نے کتنا سنہری عرصہ اور کیسی قیمتی دہائیاں گنوا دی ہیں یہاں تک کہ ہم اب تک ایک قوم بھی نہ بن سکے۔ ہم نے اقوامِ عالم کی صف میں اپنی قوم کا وقار کھودیا اور اسے بے عزت و حیثیت بنادیا ہے۔ تاہم جو کچھ بیت چکا سو بیت چکا۔ لیکن اصل قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر ہم نے یعنی ہمارے فرد فرد نے اپنا رویہ اور طرزِ زندگی نہ بدلا اور پرانی ڈگر اور ماضی کے کردار ہی کے ساتھ آگے بھی زندگی گزارنا چاہی تو اب یہ ممکن نہ ہوسکے گا۔ آنے والا وقت اگر ہم نہ بدلے تو خدانخواستہ ہماری تباہی اور ہمارے نام و نشان کو مٹانے کا کا سندیسہ دے رہا ہے۔ لیکن اگر ہم اب بھی جاگ گئے۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیا اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے اور اپنی نئی نسل کو اعلیٰ ترین تعلیم و تربیت اور بہترین امنگوں اور عزائم سے سرشار کرسکے اور ان میں حب الوطنی اور قومی تعمیر و خدمت کا صور پھونک سکے اور ہمارا ایک ایک فرد قومی و ملی تعمیر و ترقی کے میدان کا سپاہی بن گیا تو پھر یقیناً قوی امید ہے کہ ہم اس موجودہ راکھ کے ڈھیر سے شعلۂ جوالہ بن کر ابھرسکیں گے اور قوموں کی صف میں اپنا جائز و واقعی وقار و مقام پاکر رہیں گے۔

·        ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ قدرتی وسائل، قابل و دانش مند لوگ، توانائی کی قیمتی کانیں ہمارے آبادی کا بڑا حصہ نوجوان، وغیرہ۔ ضرورت صرف بیدار ہونے اور خوابِ غفلت سے نکلنے اور پوری راست بازی سے آمادۂ سفر ہونے کی ہے۔ جو قومیں اس طرح اٹھ کھڑی ہوں، قدرت ان کی سپورٹ پر آجاتی اور ان کی ہمت و عزم کے بقدر ان کا راستہ صاف کرتی جاتی اور جس بلندی تک وہ پہنچنا چاہیں، اس بلندی تک اس کے لیے سیڑھیاں اور زینے تراشتی چلی جاتی ہے۔

·        یہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر شرط صرف اتنی ہے کہ قومی عمارت کا ہر ہر حصہ ہمارا ہر ہر فرد ذمے دار و فرض شناس بن جائے۔ یعنی ہمارے اندر کیریکٹر کی اسپرٹ بھر جائے۔ لہٰذا ہمارے سفر کی پہلی سیڑھی یہ ہے کہ ہم اپنے دین اسلام کی تعلیمات کے ذریعے اپنے چھوٹے بڑے ہر ہر فرد میں اعلیٰ اخلاق و اقدر کی محبت اور اونچا کیریکٹر پیدا کریں۔ یہ بنیادی منزل اگر حاصل کرلی گئی تو آگے کے مراحل کافی آسان ہوجائیں گے۔



2011/5/30 Muhammad Khan <aslamkhan1960@yahoo.com>
Dear Asfandyar Azmat sahib
Assalam u allakum
I am tankful for sharing  very precious and valuable ideas for our society and reestablishment rebuilding this lost nation  A hopeless nation A nation  whose has every natural resource A nation without great leadership A nation could stand up their own feet if every one as you mentioned sir, should start from their inner circle and take the same education manner to next door and beginning will take us to  the out of this darkness which our society are living  today but each and every one has to take responsibility
We need to make sure ours education system ours institutions are  best our mechanism must be get better to prepared our new generation for high level technology high level study to compete with international level and must understand the deference and the weakness and failure or fall  of ours system and society and how they could make stronger this Islamic republic of Pakistan and cooperate with other muslims world to stand up as great nation .
For all this every one should take responsibility of course time has come for an end our nation is in great deep trouble exam .
we have lost the golden chance after the 1947 independence day 63 years has been waisted until now we could not  be come one nation or united .
Our nation or leadership was fail to recognize Pakistan as a proud nation
But indeed we have given our country shameless we been recognize as a corrupt and failure  nation . And we must accept the facts and reality.
Indeed you are right sir fallen nation must stand up and fight back and eliminate those betrays 
May Allah show us right path and what we say we must follow practically 
Once again thank you 
Aslam khan 
PTI VA 
Facebook

On May 28, 2011, at 2:56 AM, Isfandyar Azmat <isfi22@gmail.com> wrote:

ڈیئر محمد اسلم خان صاحب

آداب

میں تو اسی بات کو غنیمت سمجھتا اور اس پر خدا کا شکر بجالاتا ہوں کہ ہماری قوم کے کم از کم چند گنتی کے افراد تو اس بات کا شعور و ادراک رکھتے اور برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری بدقسمتی ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ ہمارے موجودہ حالات کسی اور نے نہیں بلکہ قوم کے تمام افراد و طبقات نے مل کر اپنی اپنی کوتاہیوں، غیر ذمے داریوں اور بد کرداریوں کی بدولت پیدا کیے ہیں اور ہمارے مسائل کا حل اور ہماری بیماریوں کا علاج اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے کہ ہمارا فرد فرد توبہ کرے، اپنی بد اعمالیوں سے رجوع کرے اور اپنے اور قوم کے حالات کو سنوارنے اور مستقبل کو سدھارنے کے لیے تن من دھن سے اٹھ کھڑا ہو۔

آپ نے مغربی اقوام کے جن رویوں اور اقدار کی طرف اشارہ کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ بلند و برتر رویے اور اعلیٰ و پاکیزہ اقدار و روایات نہ مغرب کا ٹھیکہ ہیں اور نہ ہی مشرق کی اجارہ داری بلکہ یہ عالمی اور آفاقی قدریں اور مشترکہ سرمایۂ انسانیت ہیں۔ جو قوم و ملت ان کی پاسداری کرتی اور انہیں اپنی اولین ترجیح بناتی ہے، تاریخ اور خود موجودہ احوال گواہ ہیں کہ ترقی پاتی، بلندیوں پر جاتی اور قیادتِ انسانی و امامتِ عالمی کا تاج اپنے سر پر سجواتی ہے۔ ہم اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ ہمارا دین "اسلام" سب سے زیادہ زور و بلند آہنگی کے ساتھ ان رویوں اور اقدار کو پسندیدہ قرار دیتا اور اپنے ماننے والوں کو انہیں اپنانے اور اپنے معاشرے کا حسن و جمال و نشانِ امتیاز بنانے کی تلقین و نصیحت کرتا ہے لیکن ہم ہی سب سے بڑے بدقسمت اور کوتاہ نصیب بھی ہیں کہ ایسے مذہب کے ماننے والے اور دم بھرنے والے ہوکر بھی ہم ہی انہی شاندار انسانی روایات اور عظمت بخشنے والی اخلاقی اقدار سے کوسوں اور میلوں دور و نفور ہیں۔

ہمارے مقتدر طبقات اور اشرافیہ بلاشبہ بدکرداری اور قومی مفادات سے بے پروائی اور کرپشن و بے ضمیری میں پوری قوم میں سب سے آگے ہیں لیکن ہم یہ کیوں نہیں سوچتے اور سمجھتے کہ ان جیسے امراء و وزراء خود قدرت اور قادرِ مطلق کا عذاب و تازیانہ ہے جو ہماری کارستانیوں نے ہم پر مسلط و سوار کیا ہے۔ کیا کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوگا اور اسے ثابت کرسکے گا کہ ہمارے بااثر و اختیار افراد تو بگڑے ہوئے ہیں لیکن قوم کے عام افراد میں کوئی خرابی اور خامی نہیں پائی جاتی بلکہ ان میں کا تو شخص شخص زمزم کا دھلا اور فرشتہ صفت اوصاف و خصائص کا مجموعہ ہے۔ کیا عام آدمی کو دن بھر میں بے شمار بار اپنے جیسے عام آدمی سے بدسلوکی و بدمعاملگی، بدزبانی و بے حسی اور سنگدلی و خود غرضی کا تجربہ نہیں ہوتا؟ کیا عام لوگ ہی ایک دوسرے کے کاموں میں روڑے نہیں اٹکاتے اور اپنے ہی جیسے عام افراد کے جائز حقوق دینے تک کے معاملے میں اپنے ناجائز مطالبات کی دیواریں نہیں کھڑی کردیتے۔ کیا کیا بیان کیا جائے، سب جانتے ہیں کہ اس سوسائٹی کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا اور زہریلا بنا ہوا ہے۔ کوئی شخص بھی کرپٹ و بدکردار ہونے کے معاملے میں پیچے اور کم نہیں ہے۔ مہنگائی، لوٹ مار، دھوکے بازی، گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی، کلرکوں اور پولیس کے افراد کی رشوت خوری، ملاوٹ اور دوسری ہزار برائیوں میں کیا معاشرے کے عام افراد پوری طرح ملوث نہیں ہیں۔یقیناً ہیں اور یہی فرد فرد کا بگاڑ مل کر معاشرے کو ایک مریض و بگاڑ زدہ سوسائٹی بنائے ہوئے ہے۔ لہٰذا ہمیں ضرورت ہے کہ ہم فرد فرد پر محنت کریں۔ اپنے اپنے دائروں میں فعال و متحرک ہوں۔ سب سے پہلے اپنی اور اپنے گھرانوں کی برائیوں، خود غرضیوں اور بے حسیوں کو دیس نکالا دیں۔ اس کے بعد زیادہ بڑے پیمانے پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے احباب و متعلقین کے دائرے کو اپنا میدانِ کار بناکر فرد فرد کو باضمیر و احساس بنانے، قوم و اجتماعیت کے مفادات کا پاسدار بنانے اور ایک فرض شناس و دیانت دار انسان و شہری کی حیثیت سے جینے کا سلیقہ مند بنانے کی کوشش کریں۔ ہر درد مند و محبِ وطن پاکستانی کا یوں کھڑا ہونا اور اس جہاد کے راستے کا مسافر بننا اور فرد فرد کا سدھار و سنوار ہی ہمارے معاشرے کو ایک پرامن گہوارہ، سکون و چین بھرا آشیانہ اور جنت نظیر بستی بناسکتا ہے۔

اس تعمیری مہم میں سب سے زیادہ اہمیت اپنے نوجوانوں کو دینے کی ضرورت ہے۔ ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ ضرورت مند ذہین و باصلاحیت بچوں کو مواقع اور سپورٹ دی جائے۔ انہیں اپنے اپنے شعبے میں مہارتِ تامہ بہم پہنچانے اور فائق و ممتاز مقام پر پہنچنے کی ترغیب دی جائے اور ہر طرح ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ انہیں اپنی دینی تعلیمات اور مشرقی اقدار و روایات سے مانوس و آشنا بنایا جائے۔ ان میں اعلیٰ اوصاف، تعمیری سرگرمیاں  اور تخلیقی و صحت مند عادات عام کی جائیں، وغیرہ وغیرہ۔

ہمیں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ قوموں کی تعمیر کا سفر جھٹ پٹ طے ہونے والا سفر ہرگز نہیں ہوتا۔ یہ بہرحال ایک طویل المیعاد راستہ ہے۔ اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ قوم پوری کی پوری خود کو سنوارنے اور بلند مقام پر پہنچانے کے عزم و ارادے سے سرشار ہوجائے۔ ہمارے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فوری نتائج دیکھنا چاہتے اور ہتھیلی پر سرسوں جماتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے کم از کم سمجھدار افراد اِس صبر آزما اور مشقت بھرے انداز میں کام کرنے اور قربانی دینے کے لیے آمادہ و مستعد ہوجائیں تو کچھ دیر ہی سے سہی، اس کے نتائج بہرحال نکلیں گے۔ ورنہ پچھلی چھ دہائیوں کی طرح اگلی چھ دہائیاں بھی گزر جائیں گی مگر ہمارا رونا دھونا اور اپنی بدحالی کے شکوے ختم ہوکر نہ دیں گے۔

وجہ یہی ہے کہ دردِ دل اور حبِ وطن رکھنے والے بھی اس طویل المیعاد تعمیری راستے کے مسافر نہیں بنتے بلکہ چمتکاروں اور معجزوں سے قوم کی سوئی قسمت کو جگانا اور چمکانا چاہتے ہیں۔ لیکن اب تک کی ہماری اپنی تاریخ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بہت کافی ہے کہ اس طرح کی خواہشوں، خوابوں  اور تمناؤں سے کچھ نہیں ہوتا اور نہ آئندہ ہوگا۔ لہٰذا میرے عزیز ہم وطنو اور سونے سے زیادہ قیمتی و بیش قیمت نوجوانو! اٹھو اور خود کی قربانی کی قیمت پر قومی تعمیر کے سفر کا آغاز کرو۔ پختہ ارادہ کرلو کہ ہمیں مٹ جانا ہے پر قوم کا نام و نشان نہیں مٹنے دینا۔ ہمیں کچھ ملے نہ ملے پر ہم نے قوم کو سب کچھ حاصل کرانا ہے۔ ہمارے جیتے جی حالات سنوریں نہ سنوریں پر ہماری آئندہ نسلوں کو ضرور آسودہ و خوشگوار حالات میں جینا ہے۔

آج اس دنیا میں جو ذرائع و اسباب وجود میں آچکے اور ابلاغ اور رسل و رسائل کے جو آلات و ہتھیارات بنائے جاچکے ہیں، ان کی بدولت قوی امید ہے کہ اس جدوجہد میں زیادہ وقت بھی نہ لگے۔ پھر ہمارے پاس سوچنے اور شعور رکھنے اور رہ نمائی کی ممتاز قابلیت رکھنے والے لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے۔ مختلف شعبوں کے ماہرین بھی ہمارے ہاں وافر تعداد میں موجود ہیں۔ مخلصین کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر ہمارے عزم و توانائی اور جوش و جذبے سے لبریز جوانوں کے تو کیا ہی کہنے ہیں۔ بس آمادہ ہونے اور عازمِ سفر ہونے کی دیر ہے۔ چل پڑنے اور تسلسل سے چلتے رہنے کی ضرورت ہے۔ خوب محنت کرنے اور بہت ساری قربانیاں پیش کرنے پر آمادہ ہونے کی ضرورت ہے۔ پھر صبر و انتظار بھی بہرحال ناگزیر ہوگا۔ خاموشی اور تسلسل کے ساتھ لوگوں کو اپنا اپنا کام کرنا اور اپنے ارد گرد کے افراد کو تعمیر کرکے ساتھ ملانا ہوگا۔ تب جاکر کچھ ہوگا اور ان کے ڈالے ہوئے بیج پھل دار و سایہ بردار درختوں کے تنآور روپ میں جلوہ افروز ہوکر ان کے دامن کو خوشیوں اور آسائشوں سے بھر دیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہماری قوم و ملت کے افراد کو اپنے بھروسے اور اعتماد پر یہ کام کرنے اور اپنے بل پر اپنی تعمیر کے اس راستے کا مسافر بننے کی توفیق و ہمت و سعادت عطا فرمائے، آمین۔



2011/5/27 Muhammad Khan <aslamkhan1960@yahoo.com>
AOA
Indeed you are right every words correct and we has a patriot must take initiative bold step
Every signal citizen need to straight and follow the right path and support the society by our social work
Two main bad habit 
Dishonesty and corruption most of us Involved no matter what type  of work business citizen are related but we all are depend and does and if you look closely our society  is nearly destruction point
Islam was spread rapidly in asia and Europe  base on two major things 
Honesty and justice and zaqqat mean charity and tax 
We all need to get back on the track if you study west they follow the same rules
That's why today their society and style of living  batter then us 
Unity and trust are better then us 
We must correct ours self and extremism is not the solution
Yes we must loud our voice against oppressor 
Our society must take u turn 
May Allah help we all need to save humanity 
Regards 
Aslam khan 













On May 27, 2011, at 2:13 AM, Isfandyar Azmat <isfi22@gmail.com> wrote:

"آج ہم اسلامیانِ پاکستان جہاں پہنچ گئے ہیں……اس میں ہم کسی کو دوش نہ دیں……صاف صاف اعتراف کریں کہ یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے……اور اُن کو کسی لاگ لپٹ کے بغیر پہچانیں جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے……پہنچانے کا ہر ہر سامان کیا ہے……"

ذرا ان مذکورہ جملوں کو بغور پڑھیے کہ یہ کس کھلے طور پر ایک دوسرے کو جھٹلارہے اور پہلا دوسرے کی اور دوسرا پہلے کی گردن ماررہا اور گلا کاٹ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم جس ذلت و پستی اور ابتلاء و بدحالی کے مقام پر پہنچے ہیں اُس پر اپنی بداعمالیوں اور کرتوتوں کی وجہ سے پہنچے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی دوسرے کو دوشی اور مجرم قرار دینے کا کوئی حق نہیں ہے تو پھر یہ اگلا فقرہ :

……اور اُن کو کسی لاگ لپٹ کے بغیر پہچانیں جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے……پہنچانے کا ہر ہر سامان کیا ہے……

کیا بلا ہے۔ بھئی یا تو پوری قوم اور اس کا فرد فرد اپنی موجودہ بدحالی و ابتری کا ذمے دار ہے یا پھر آپ کے بقول صرف اور صرف وہ بکاؤ جرنیلز، سیاسی کمانڈرز اور میڈیائی مجاہدین اس صورتحال کی رونمائی کے ذمے دار و تخلیق کار ہیں، جنہیں آپ اس طرح کی ای میلز میں جی بھر کر کوستے اور ہر طرح کے برے، بدترین اور زہریلے فقروں، طنزوں اور نشتروں سے اپنے غیض و غضب کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

آخر بتائیے تو سہی کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات ٹھیک اور حقیقت کی عکاس و غماز ہے؟؟؟

بات اصل میں یہ ہے کہ ہماری قوم کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا ہر ہر فرد اپنے حدود اور اختیارات کے دائرے میں کرپٹ اور گھٹیا ترین اخلاق و کردار والا ہے۔ عام آدمی اپنے چھوٹے گول دائرے میں اسی سوچ، خود غرضی، مفاد پرستی، بے ضمیری، اجتماعی مفاد سے بے پروائی اور لوٹ کھسوٹ اور اوپری کمائی کی گندگیوں میں لتھڑا ملتا ہے جس میں بظاہر حکمران و صاحبانِ حیثیت و ثروت و اختیار طبقات زیادہ بڑے پیمانے پر ملوث و آلودہ نظر آتے ہیں۔ صورتحال حقیقت میں وہی ہے جسے ہمارے ایک محترم نے "ہر کرسی پر فرعون بیٹھا ہے" نامی اپنے ایک خوبصورت مضمون میں بیان فرمایا تھا کہ اس قوم کی بدقسمتی اس کے حکمران اور با اثر و اختیار لوگ اور ان کا کرپشن نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس کا ہر ہر فرد فرعون و شیطان بنا ہوا ہے۔ ہر کوئی بے ایمان، خائن، لٹیرا، بے حس، مفاد پرست اور بکاؤہے۔ ہر کسی کی کوئی نہ کوئی قیمت ہے جس کے ملنے پر وہ ہر طرح کی بدی، خیانت، ظلم، کرپشن اور قوم فروشی و اجتماعی مفاد کی ملیا میٹی پر بخوشی راضی ہوجاتا ہے۔

دنیا میں قوموں نے ہم سے بہت زیادہ بدترین حالات سے ابھر کر اور ترقی و خوشحالی کی معراجوں پر پہنچ کر دکھایا ہے۔ کیوں کہ ان قوموں کے افراد جاگ گئے تھے اور انہوں نے ٹھان لی تھی کہ ہم اپنی قومی ترقی اور اجتماعی بہبود کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں، اس سے دریغ نہ کریں گے اور اپنے لوگوں کی فلاح و تعمیر کے لیے ہر طرح کی قربانی دیں گے۔ ہمارا مسئلے کا حل اور ہماری ضرورت بھی یہی ہے کہ افرادِ قوم جاگیں۔ اپنی بدعملیوں سے توبہ کریں۔ اپنے جرائم سے باز آئیں۔ اپنی چھوٹی چھوٹی حرام خوریاں بند کریں۔ اپنی معمولی معمولی دھوکے بازیاں، خیانتیں، رشوت خوریاں، بے حسیاں اور مفاد پرستیاں وغیرہ ختم کریں۔

اسی سے مسئلہ حل ہوگا اور ہم ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھیں گے۔ ہم اگر خالی کرپٹ حکمرانوں، غدار جرنیلوں اور میڈیائی جوکروں کے داغوں اور روگوں پر انگلیاں اٹھاتے اور انہیں سدھرنے اور سنورنے کی مظلومانہ اپیلیں کرتے اور پھسپھسی دھمکیاں دیتے رہے تو اس سے نہ پہلے کچھ ہوا ہے اور نہ آگے کچھ ہونے والا ہے۔ جو کچھ ہوگا وہ عام آدمی کے جاگنے، اپنی خرابیوں کو دور کرنے اور قوم و اجتماعیت کی خاطر تن من دھن کی بازی لگانے سے ہوگا۔

جو حضرات و برادرانِ گرامی اپنے سینے کے جذبات اور دل کی ڈھرکنوں میں قوم کا درد محسوس کرتے اور اس کی فلاح و بہتری اور تعمیر و ترقی کے لیے کچھ کرنے کا عزم و ارادہ رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی اپنی بساط بھر دائرے میں چھوٹے چھوٹے عملی و تعمیری کاموں کو تسلسل کے ساتھ جاری کریں، اپنی زندگیاں اپنے اپنے شعبوں کے حوالے سے قوم کے شعور و ڈھانچے کو اوپر اٹھانے کے جہاد میں جھونک ڈالیں اور جو لوگ فکر و خیال کے میدان میں قوم کو روشنی و رہ نمائی دینے کی تڑپ اپنے اندر رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ قوم کو مشکلات و مصائب کے پہاڑوں کے نقشے دکھادکھا کر اور اپنے بدخواہ اور بے غیرت و حمیت حکمرانوں کے مظالم و مفاسد کی داستانیں سنا سناکر مایوس و دل شکستہ کرنے کے بجائے اس کے عزم و حوصلے کو ابھاریں، اس کے اندر اعتماد و خود داری پیدا کریں، اپنے بل پر اٹھنے اور اپنی تعمیر آپ کرنے کی امنگیں جگائیں، نوجوانانِ قوم کے ذہانت و صلاحیت کو صحیح رخوں اور مثبت میدانوں میں موڑنے کی کوشش کریں، مادیات کی اندھی بہری دوڑ میں شامل ہوکر خود غرضی و مفاد پرستی و بے حسی کے مردہ پیکروں میں ڈھلنے کے بجائے سادگی اپناکر اور اپنی قابلیتیں اور لیاقتیں کام میں لاکر اپنے  اور قوم کے لیے بہترین و شاندار مستقبل کا سویرا طلوع کرنے کے لیے تن من دھن سے محنت کرنے کے ولولے پھیلائیں۔ شکوے، شکایتیں، مظالم کی قصہ خوانیاں، حکمرانوں کے بگاڑ کی دہائیاں اور مایوسی و دل شکستگی کی باتیں قوم کی نیا کو پار تو کیا لگائیں گی، بحرِ پستی و بربادی میں کچھ اور گہرائی کے ساتھ غرقاب ضرور کردیں گی۔

جس قوم کی آبادی کا زیادہ بڑا حصہ تازہ دم توانائیوں سے بھرپور نوجوانوں پر مشتمل ہو، اسے ایسے کسی منجدھار سے گھبرانے اور دل چھوڑ بیٹھنے کی ہرگز ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ہے تو اس امر کی ہے کہ وہ اپنے اس انتہائی عزیز و قیمتی اثاثے کی صحیح قدردارنی کرے، اس کے علم و شعور کو بڑھائے اور اس کی بہترین تربیت و تعمیر کا اہتمام کرے اور اس میں یہ لگن بھر دے کہ اسے اپنی قوم و ملت کے لیے جینا اور مرنا ہے۔ پھر دیکھیے گا کہ کس طرح ہماری قوم و ملت کا ستارہ بھی عروج پر جاتا اور ترقی و بلندی و خوشحالی کی انتہائی چوٹیوں تک کو سر کرجاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔



2011/5/23 Rana Jee <badar701@gmail.com>



 



--
Kind Regards,

Isfandyar Azmat


--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197

No comments:

Post a Comment