Saturday, April 23, 2011

**JP** Re: معین اختر کی موت۔ ایک سوالیہ نشان از پروفیسر محمد عقیل

مضمون کی خوبصورتی اور روانی بلا کی ہے۔ تاہم اس میں جس طرح دنیا کی حقارت کی بو پائی جاتی ہے، وہ ٹھیک نہیں لگتی۔ یہ اگرچہ لاریب سچائی اور آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ یہ دنیا ایک فانی جائے مقام ہے۔ تاہم یہ اتنا غیر اہم اور بے قیمت بھی نہیں کہ انسان یہاں محدود جنت کی تعمیر کی کوشش پر مطعون کیا جائے۔ جس خدا نے اس دنیا کو ایک عارضی ٹھکانہ اور آخرت کو ایک ابدی مستقر بنایا ہے، اسی نے انسان کو ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنہ و فی الاٰخرۃ حسنہ (پرودگار! اس دنیا کی بھی بھلائیاں عطا فرما اور آخرت کے عالم کی بھی بھلائیوں سے سرفراز فرما) کا نصب العین بھی عطا فرمایا ہے۔ اس لیے گو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کو اپنے اصل ٹھکانے اور مقام کو زیادہ سے زیادہ اہمیت اور ترجیح دینی چاہیے۔ لیکن اس کا راستہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنی اس عارضی دنیا کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت، پرامن، پر راحت اور خوشگوار و پر بہار بنانے کی کوشش کرے اور ایک جنتی شخصیت و اخلاق کا حامل بن کر یہاں جیے۔

       جنت کی خوبصورتی، سرور اور لذتیں جو کچھ ہوگا، اسی لیے ہوگا کہ وہاں جنتی لوگ عمدہ و نفیس اخلاقیات و کردار کے حامل ہوں گے۔ اسی طرح اگر انسان اس دنیا میں اعلیٰ و عمدہ اخلاق اور نفیس و پاکیزہ کردار اپنالے تو یہ دنیا بھی اپنی محدودیت کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک جنت ضرور بن جاتی ہے۔ اور اس پہلو سے دنیا کو جنت بنانے کی کوشش کرنا میرے ناچیز خیال میں ایک ضروری ٹارگٹ اور خود خدا کا سجھایا ہوا نصب العین ہے۔



2011/4/23 Ishraq dawah <ishraqdawah@gmail.com>


کیا بادشاہ کیا گدا،کیا امیر کیا فقیر،کیا فنکار اور کیا فن کے پرستار سب کے سب موت ہاتھوں زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔چنانچہ معین اختر بھی چالیس سال فن کی دنیا میں راج کرنے کے بعد ۲۲ اپریل ۲۰۱۱ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کا شمارپاکستان کے ممتاز ترین کامیڈین، اداکار اور کمپیئر ز میں ہوتا تھا۔ انکی خوبی یہ تھی کہ وہ بحیثیت ایک فنکارہرکردار میں ڈھل کر اس کا حق ادا کردیتے تھے۔
معین اختر جیسے عظیم، معروف اور بڑے فن کارکی موت ہماری زندگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔کیا انسان کا مقدر اس بے بسی سے مرجانا، مٹی میں مل کر فنا ہوجانا اور کبھی واپس نہ آنے کے لئے چلے جانا ہے؟ کیا تقدیر کی الٹ پھیر میں یہی سب کچھ لکھا ہے کہ انسان محنت کرکے ایک مقام بنائے ، دولت جمع کرے، آشیانہ تعمیر کرے اور جب سکون کی گھڑیاں شروع ہوں تو موت سب کچھ چھین کر لے جائے؟ یوں تو زندگی میں پہلے ہی خوشیاں کم اور پریشانیاں زیادہ ہیں لیکن یہ کیاکہ جب سارے طوفانوں سے گذر کر زندگی کی کشتی استحکام کے ساحل تک پہنچے تو موت کا حملہ اس نائو کو عمیق اندھیروں میں ڈبودے۔
یہ تمام سوال درست اور ساری شکایتیں بجا ہوتیں اگر زندگی کا خاتمہ موت پر ہوجاتا۔ لیکن موت تو ابدی زندگی میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ یہ ایک محدود اور نامکمل دنیا سے لامحدود اور مکمل دنیا میں دخول کا ذریعہ ہے۔ یہ فنا درحقیقت بقا کی ضامن ہے۔ موت ایک ایسی زندگی کی ابتدا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی، جہاں کامیاب لوگوں کی بادشاہت ہمیشہ رہے گی، جہاں دولت دائمی ہوگی، جہاں لذت کامل ہوگی، جہاں کا عیش کبھی زوال پذیر نہ ہوگا، جہاں باغات ،نہریں، مشروبات، دودھ شہد، محلات، خدام، ملبوسات اور ان گنت نعمتیں ہونگی۔ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رضا ، انکی شفقت اور پیار بھری نگاہ ہوگی۔
اللہ نے اس مختصر اور عارضی دنیا کو امتحان بنا کر ہر شخص کو موقع دیا کہ وہ خدا کی کبھی نہ ختم ہونے والی جنت کاباسی بن جائے۔لیکن انسان نے ہمیشہ اسی دنیا کو جنت بنانے کی ناکام کوشش کی۔ دوسری جانب موت کا بے رحم شکنجہ اس مقام کو ایک ناقابل اعتبار مستقر ثابت کرتا رہا۔معین اختر کی موت اسی ابدی زندگی کا آغاز ہےاس مرحلے سے معین اختر تو گذر گئے اب آپ کی اور میری باری ہے۔ دیکھیں کہ آنے والا کل ہمیں ابدی طور پر کیا دیتا ہے؟ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا؟



--
 
 
 
 
To Unsubcribe, Please write ot us with subject UNSUBSCRIBE
 




--
Kind Regards,

Isfandyar Azmat


--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197

No comments:

Post a Comment