Thursday, June 30, 2011

**JP** Editorial & Column 30-6-2011


Editorial:

پاکستان پرحامدکرزئی کے الزامات

گزشتہ منگل کو کابل میں پاکستان' افغانستان اور امریکا کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے بعد پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیرنے مطالبہ کیاہے کہ الزام تراشی کا کھیل بندکرنے کی ضرورت ہے' ہمیں اپنے معاملات کی ذمہ داری خود لینا پڑے گی' ایک دوسرے پرانگلیاں اٹھانے سے مسائل حل نہیں ہوںگے' الزام تراشی کا سلسلہ عرصہ سے جاری ہے اور اب وقت آگیاہے کہ دونوں ممالک (افغانستان اور پاکستان) اس حوالے سے فیصلہ کریں۔ پاکستان کی طرف سے اس انتباہ کی ضرورت یوں پیش آئی ہے کہ اب امریکی مقبوضہ افغانستان کے صدرحامدکرزئی بھی پاکستان پر یہ الزامات عائد کررہے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پرحملے ہورہے ہیں۔ انہوں نے ایک دن پہلے ہی الزام لگایا تھا کہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران میں پاکستان نے افغانستان پر 470 راکٹ داغے ہیں۔ ادھر پاکستان کا کہناہے کہ سرحدپارسے پاکستانی فورسز پرحملے کے لیے آنے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے راکٹ داغے گئے تھے' ان میں سے چند افغانستان کی حدود میں جاگرے۔ حیرت تو اس پر ہے کہ ابھی چند دن پہلے ہی افغان صدر حامد کرزئی تہران میں صدرایران اور صدرپاکستان کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھے۔ اس وقت انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی اور مذاکرات نہ صرف خوشگوار ماحول میں ہوئے بلکہ یہ طے پایاکہ خطے میں امن کے لیے باہم مل جل کر کام کرنا ہوگا اور علاقائی مسائل کو خود حل کرناہوگا۔ لیکن کابل واپس جاتے ہی حامدکرزئی کا لہجہ بدل گیا جس کے بارے میں کہاجارہاہے کہ ان کے معاونین میں سے کسی نے ایک بیان تیارکرکے انہیں تھما دیا اور انہوں نے پڑھ ڈالا۔ حامدکرزئی سے زیادہ اس حقیقت سے اورکون واقف ہوگا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کا ساتھ دیاہے۔ حامدکرزئی سمیت لاکھوں افغان بھائیوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دی ہے اورآج بھی افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں۔ ان کی وجہ سے پاکستان مختلف مسائل کا شکار بھی ہے۔ حامدکرزئی سب سے پہلے تو اپنے شہریوںکو واپس بلائیں۔ امریکا اور اس کے صلیبی حواریوں کے ہاتھوں اتنے افغان باشندے قتل ہوچکے ہیں کہ اب ان مہاجرین میں گنجائش نکل آئے گی۔ ہم نہیں کہتے کہ پاکستان افغانوںکا محسن ہے اور مشکل وقت میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا رہاہے' یہ بات اس وقت کہنا اس لیے بھی مناسب نہیں کہ جناب حامدکرزئی اپنے ملک پرقابض امریکا کی مددو حمایت سے قصرصدارت میں براجمان ہیں اور اسی وجہ سے وہ امریکا کی زبان بولنے پر مجبورہیں۔ الزام تراشی کا یہ کھیل تو دونوں طرف سے جلتاہی رہے گا اور امریکا آگ پرتیل چھڑکتا رہے گا کہ اب وہ ' نیویارک ٹائمز کے مطابق' افغانستان کی مدد سے پاکستان کو سبق سکھانا چاہتاہے اور اس کے لیے حامدکرزئی سے خفیہ مذاکرات ہورہے ہیں۔ لیکن کیااس بات میں کوئی شک ہے کہ افغانستان کی طرف سے آنے والے تخریب کارپاکستان کی سرحدی چوکیوں اور فورسز پر حملے کررہے ہیں اورکئی افراد شہیدہوچکے ہیں۔ ان کو روکنا نہ صرف افغان فوج بلکہ امریکا اورناٹو افواج کی ذمہ داری ہے۔ اس کے برعکس پاکستان پر یہ الزام لگتا رہاہے کہ پاکستان سے حملہ آورجاکر افغانستان میں کارروائی کرتے ہیں اورپاکستان ان کو نہیں روکتا۔ سوال یہ ہے کہ ناٹو افواج اور افغان فوج اس ضمن میں کیاکررہی ہیں۔ مذکورہ مذاکرات کے دوران ہی امریکی سفیرمتعینہ کابل کارل ایکنبری نے بی بی سی کو انٹرویودیتے ہوئے پاکستان کے بارے میں انتہائی اشتعال انگیز اور بے ہودہ خیالات کا اظہارکیاہے۔ انہوں نے فرمایا کہ پاکستان صرف ان عسکریت پسندوں سے نمٹتاہے جو اس کے لیے براہ راست خطرہ ہوں اور جو پاکستان کے دشمن نہیں سمجھے جاتے ان کے تعاقب اور ان سے نمٹنے کا ریکارڈ بہت خراب ہے۔ ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ جن سانپوں سے آپ کے بچوں کو خطرہ ہو ان سے تو نمٹاجاتاہے اور دیگرسانپوں کو اپنے پڑوسیوں کے بچوں کو ڈسنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہ مثال خود امریکا پر صادق آتی ہے جو ایسا اژدھا ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کو نگل گیاہے اور جگہ جگہ سنپولیے چھوڑدیے ہیں۔ کیا ستم ہے کہ مذکورہ مذاکرات کا مقصد طالبان سے مفاہمت کا نقشہ تیارکرنا تھا لیکن الزامات کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ لیکن کیا یہ طالبان وہی نہیں ہیں جن کو امریکی سفیر سانپ قراردے رہاہے۔ امریکا اور کرزئی حکومت افغان مجاہدین سے مذاکرات کررہے ہیں اور پاکستان مدد دینے کے لیے تیار ہے لیکن اس پر الزام لگایا جارہاہے کہ وہ افغانستان پر راکٹ برسارہا ہے کرزئی صاحب امریکا اور اس کے صلیبی حواری آپ کے شہریوں کے ساتھ کیاکررہے ہیں۔؟


عادتیں

متفرق  Column Javed Chaudhry

وہ دونوں بے جوڑتھے' خاوند انتہائی خوبصورت تھا'لمبا قدر' گورا رنگ' گھنگھریالے بال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ' وہ مال ودولت اورسماجی رتبے میں بھی بلندتھا' اس نے بیس سال پہلے چھوٹے پلاٹس خریدکرگھربنانا شروع کیے تھے' یہ کاروبار چل پڑا اور یہ آہستہ آہستہ کروڑ پتی ہوگیا' اس کے پاس اسلام آباد میں ہزارگزکاگھرتھا' اس کے پاس دو نئی بی ایم ڈبلیو بھی تھیں اور یہ اچھا خاصا سوشل اور ہنس مکھ بھی تھا لیکن اس کی بیوی اس کے برعکس تھی' یہ چھوٹے قد کی خاتون تھی' اس کا رنگ کالاتھا' اس کی تعلیم بھی واجبی تھی اور یہ زیادہ سوشل بھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود دونوں میں بلاکی رفاقت تھی' یہ دونوں سلوک' محبت اور احساس کا شاندار مرکب تھے'یہ آئیڈیل کپل تھا اور خاندان کے لوگ ان کی مثال دیتے تھے' ان کی شادی کو 25 سال ہوچکے تھے'ان 25 برسوں میں ان کی کبھی لڑائی نہیں ہوئی' خاوند ملک کے اندر اور ملک کے باہر اپنی بیوی کو ساتھ لے کر جاتا تھا' یہ اس کے ساتھ شاپنگ بھی کرتا تھا اور دوستوں اوررشتے داروں کی تقریبات میں بھی اسے ساتھ لے کر جاتا تھا' یہ دونوں ریستورانوں میں کھانا بھی کھاتے تھے' فلم بھی دیکھتے تھے اورصبح اکٹھے واک بھی کرتے تھے' ان کے تین بچے تھے اور یہ تینوں بھی لائق سلجھے ہوئے اور مہذب تھے۔ غرض یہ ایک آئیڈیل گھرانہ تھا۔ہم اگر دنیاداری کے "پوائنٹ آف ویو" سے دیکھیں تو اس گھرانے کو آئیڈیل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خاوند اور بیوی کی پرسنیلیٹی میں زمین اور آسمان کا فرق تھا' ہم سب لوگ زندگی میں "گڈمیچ" کی تلاش میں رہتے ہیں' بیوی کا قد'رنگ' روپ' تعلیم اور گھرانہ مرد سے اچھا ہونا چاہیے' اگر اچھا نہیں تو کم ازکم اس کے برابرضرور ہونا چاہیے' ہم میں سے شاید ہی کوئی مردہوگا جو کم ترشخصیت کی حامل خواتین کو اپنا شریک سفربنائے' ہم سب کو گورارنگ' لمبا قد' دبلا پتلاجسم' لمبے بال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین چاہئیں' ہم اور ہمارے گھرکی خواتین بھی جب رشتے کی تلاش میںنکلتی ہیں تو یہ بھی حوروں جیسی لڑکیاں تلاش کرتی ہیں' ہماری کوشش ہوتی ہے ہم ایسی خاتون کے ساتھ شادیاں کریں جس کا چہرہ لوڈشیڈنگ میں چاندنی کی طرح چمکے اور لوگ اس کے حسن اور خوبصورت سے جل جائیں لیکن یہ گھر اور یہ صاحب اس سے بالکل مختلف تھے' ان کی پرسنیلیٹی اور ان کی بیوی کی پرسنیلیٹی میں زمین اورآسمان کا فرق تھا اور یہ اس کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے اور مجھے جب یہ معلوم ہوا یہ محبت کی شادی تھی تو میری حیرت پریشانی کو چھونے لگی۔ میں ایک دن ان کے گھرچلاگیا اور ان سے عرض کیا"آپ اگر برانہ منائیں تو میں آپ سے ایک سوال پوچھ لوں " انہوں نے غورسے میری طرف دیکھا' قہقہہ لگایا' اپنی بیگم کو آوازدی' ان کو بلوایا اور سامنے بیٹھاکر بولی"مجھے معلوم ہے آپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں" بیگم نے بھی مسکرانا شروع کردیا' میں شرمندہ ہوگیا' وہ دونوں بڑی دیرتک ہنستے رہے اور اس کے بعد وہ صاحب بولی"آپ دکانوں سے ہمیشہ ریپر اورکوردیکھ کر اشیاءخریدتے ہیں' آپ ٹیلی ویژن ' ریڈیواور اخبارات کے اشتہارات پڑھ کر' بل بورڈ اور سائن بورڈ دیکھ کر اشیاءخریدتے ہیں' لیکن ان مصنوعات ان چیزوں کا اصل امتحان اس وقت شروع ہوتاہے جب ان کاریپر'ان کا کور یا ان کا ڈبہ اترجاتاہے اور ہم انہیں ڈائننگ ٹیبل پر رکھ لیتے ہیں' انہیں منہ میں ڈالتے ہیں یا پھر انہیں اپنے استعمال میں لے آتے ہیں' ہمارے استعمال کے بعد کوالٹی کا مرحلہ شروع ہوجاتاہے' اگر چیزکی کوالٹی اچھی ہوگی تو ہم اسے باربارخریدیں گے' ہم اسے باربار استعمال کریں گے ورنہ ہم اسے تبدیل کردیں گے یا پھر اسے اٹھاکر باہرپھینک دیں گے' ہماری پرسنیلیٹی ہمارا رنگ' روپ' شکل' قد اورکپڑے بھی ایک ایسا ہی ریپرہوتے ہیں'یہ ایک اشتہارایک اعلان اور ایک کورہوتے ہیں' ہم ایک دوسرے کا کور دیکھ کر ایک دوسرے کی شخصیت کا اعلان اور اشتہاردیکھ کر ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں' ہم ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں لیکن ہم جونہی اک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں' ہم ایک دوسرے کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں تو ہمارا ریپر اترجاتاہے اورہماری کوالٹی کا امتحان شروع ہوجاتاہے' اس کے بعد ہماری عادتیں ہماری شخصیت بن جاتی ہیں' ہم کتنے مہذب ہیں' ہم کس قدر صاف ستھرے ہیں' ہم میں کس قدر برداشت ہے' ہمارے اعصاب کتنے مضبوط ہیں'ہم دوسرے کوکتنی اسپیس دیتے ہیں' ہم دوسرے کے جذبات کا کتنا خیال کرتے ہیں' ہم دوسرے کے آرام اور سکون کا کتنا خیال رکھتے ہیں' ہم کس قدر بے غرض' مخلص اور ایماندار ہیں' ہم کتنے سچے ہیں' ہم دوسروں کے لیے کتنی قربانی دیتے ہیں' ہم کس قدر سمجھدارہیں' ہم کس قدر کفایت شعار ہیں اور ہمارے اندر کتنی انتظامی صلاحیتیں ہیں' وغیرہ وغیرہ ' پرسنیلیٹی کا ریپر اترنے کے بعد یہ ساری عادتیں اہم ہوجاتی ہیں"۔میں ان کی بات سنتا رہا' وہ بولے "انسان دوسرے انسان کے رنگ روپ اورقد کاٹھ کے ساتھ زندگی نہیں گزارتا' اس کی عادتوں اور اچھائیوں کے ساتھ گزارتاہے۔ آپ دنیا کے خوبصورت ترین مرد اور دلفریب ترین عورت ہی کیوں نہ ہوں لیکن آپ اگر جھوٹے ہیں' آپ لالچی' بے ایمان' فراڈیے اورظالم ہیں' آپ کپ میں تھوک دیتے ہیں یا آپ واش روم کے بعد ہاتھ نہیں دھوتے تو آپ کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوجائے گا۔ میں نے زندگی میں بڑے بڑے آئیڈیل کپلز کی طلاق ہوتے بھی دیکھی ہے اور ایک دوسرے کو کورٹ اورکچہریوں میں گھسیٹتے ہوئے بھی دیکھاہے' کیوں؟ کیونکہ یہ خوبصورت اور پڑھے لکھے تھے لیکن ان کی عادتیں اچھی نہیں تھیں چنانچہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکے"۔وہ رکے' انہوں نے اپنی بیگم کی طرف دیکھا اور مسکراکر بولی"میری بیوی کی عادتیں بہت اچھی ہیں' اس نے میرے ساتھ آج تک جھوٹ نہیں بولا' اس نے کبھی فرمائش نہیں کی' ہماری شادی ہوئی تو میری آمدنی پانچ ہزار روپے تھی' اس نے اس میں بھی گزارا کرلیا اور یہ آج بھی سکھی زندگی گزاررہی ہے' اس نے مجھے کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا' مجھے غصہ آجائے تو یہ پورے اطمینان سے میری بات سنتی ہے اور کبھی اس بات کو طول نہیں دیتی' آپ کو اس پورے گھرمیں کسی جگہ مٹی اورگردکا نشان نہیں ملے گا' آپ کو کسی جگہ بو نہیں آئے گی اور کسی جگہ کاغذکا کوئی ٹکڑا دکھائی نہیں دے گا' پچھلے پچیس سال میں کبھی ایسا نہیں ہوا مجھے کپڑے استری کیے نہ ملے ہوں' میرے جوتے' جرابیں اور بنیانیں گندی ہوں یا مجھے صاف تولیہ نہ ملاہو۔ مجھے ان 25 برسوں میں کبھی کھانا ٹھنڈا نہیں ملا' میں نے کبھی اس کی اونچی آواز نہیں سنی' اس نے میرے تینوں بچوں کو مہذب ترین بچے بنایا' یہ انہیں اسکول بھی چھوڑکرآتی تھی اور واپس بھی لاتی تھی اور انہیں ہوم ورک بھی کراتی تھی' ان 25 برسوں میں اس نے کوئی فضول خرچی نہیں کی اور اس نے جان بوجھ کر کوئی نقصان نہیں کیا۔ میں نے ان 25 برسوں میں اسے کبھی پسینے میں نہیں دیکھا ' اسے کبھی گندا نہیں پایا اور کبھی ایسا نہیں ہوا میں نے ریموٹ کنٹرول کے لیے سائیڈ ٹیبل پرہاتھ مارا ہو اور مجھے وہاں ریموٹ کنٹرول نہ ملا ہو اور میںکبھی باتھ روم میںگیاہوں اور وہاں پانی نہ ہو یا ہماری ڈائننگ ٹیبل پرگندے برتن پڑے ہوں یا ہماری سنک کی ٹونٹی لیک کررہی ہو یا میں شام کو گھرآوں اور گلی میں کھڑے ہوکر ہارن دیتا رہوں یا گھنٹی بجاتا رہوں اور کوئی دروازہ نہ کھولے یا مجھے گھرمیں کوئی دستاویزیاکاغذ تلاش کرنا پڑے یا مجھے وقت پرپینسل نہ ملے۔ آپ یقین کیجیے اس عورت کی وجہ سے میری زندگی میں سکون ہی سکون' آرام ہی آرام اور آسائش ہی آسائش ہے چنانچہ میں اس سے خوش ہوں' یہ مجھ سے خوش ہے اور ہماری زندگی کی گاڑی اطمینان سے چل رہی ہے"۔میں نے پوچھا"کیا آپ کی کبھی لڑائی نہیں ہوئی" انہوں نے قہقہہ لگاکر جواب دیا"میں نے کئی بارکوشش کی لیکن یہ مجھے موقع ہی نہیں دیتی' اس نے کبھی مجھ پر شک بھی نہیں کیا"۔ وہ رکے اور بولے "انسان دوسرے انسانوں کی عادتوں کی وجہ سے ان کے قریب ہوتاہے' ہماری اگرعادتیں اچھی ہوں گی تو ہم طویل عرصے تک ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہیں گے اور اگر ہم اچھی عادتوں کے مالک نہیں ہیں تو ہم خواہ کتنے ہی وجیہہ اور خوبصورت کیوں نہ ہوں ہم دوسروں کے ساتھ نہیں چل سکیں گے لیکن ہم اس حقیقت کو بھلا کر ایک دوسرے کے ریپرکو پرسنیلیٹی سمجھ بیٹھتے ہیں اور جب رنگ روپ کا ریپراترجاتاہے تو ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں"۔



لوڈشیڈنگ اور متحدہ کی خاموشی

متفرق 

( یہ کالم متحدہ کی حکومت سے علیحدگی سے قبل تحریر کیا گیا ) نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو جب آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا تو اِس مقصد کے لیے بہت بڑے پیمانے پر آگ دہکائی جانے لگی۔ نمرود کے درباری اور مصاحبین لکڑیاں لا لا کر آگ کے اِس بڑے الاو ¿ میں جھونکنے لگے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کے لیے جو الاو ¿ دہکایا گیا تھا اُس کی تپش اتنی زیادہ تھی کہ اِس الاو ¿ سے کئی سو گز کی دوری پر بھی کوئی انسان کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ جب نمرود کے درباری آگ کے اِس بڑے الاو ¿ کے لیے ایندھن فراہم کررہے تھے اور اِس کی تپش میں مسلسل اضافہ کرنے میں مصروف تھے تو ایک ننھی منھی سی چڑیا اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ بار بار لیکر آتی تھی اور الاو ¿ کی تپش اُسے جہاں تک آنے کی اجازت دیتی، اُس مقام پر وہ پانی کی یہ بوند گرا کر مزید پانی لانے کے لیے لوٹ جاتی تھی۔ کسی نے اُس چڑیا سے پوچھا۔ "تو کیا سمجھتی ہے کہ تیرے لائے ہوئے پانی کے یہ چند حقیر قطرے اتنی بڑی آگ کو بجھانے کا سبب بن جائیں گے"؟ چڑیا نے جواب دیا "میں جانتی ہوں کہ میرے لائے ہوئے پانی کے یہ قطرے اِس آگ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن میں یہ چاہتی ہوں کہ حشر کے دِن جب اِس الاو ¿ کو جلانے والوں اور اِس آگ کو بجھانے والوں کی فہرست تیار کی جائے تو میرا نام اِس آگ کے بجھانے والوں کی فہرست میں شامل ہو"آج کل کے گرم ترین مہینوں میں کراچی کے شہری روزانہ 10 سے 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا جو عذاب پچھلے ڈیڑھ ماہ سے بھُگت رہے ہیں اور اِس ظلم پر ہمارے حکمران جس طرح خاموش ہیں اِن کی یہ خاموشی تو کسی بھی طرح غیر متوقع قرار نہیں دی جاسکتی لیکن موجودہ حکومت کی ایک اہم ترین اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی پُر اسرار اور معنی خیز خاموشی اِس جماعت کے ووٹروں پر جو ستم ڈھا تی رہی ۔ یقینا متحدہ کی رابطہ کمیٹی کو اِس کا قطعی اندازہ نہیں ہواحالانکہ کراچی کی ملکیت کا دعویٰ ہے ۔ اگلے انتخابات میں دو سال سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے اور کراچی شہر کے ووٹروں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ پورے پاکستان کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ باشعور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِس شہر سے پارلیمنٹ کی سیٹ جیتنے کا کوئی وڈیرا یا چوہدری تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ جس شہر کے ووٹرز اتنے باشعور ہوں کیا وہ اگلے انتخابات میں خود پر نازل کیے جانے والے لوڈشیڈنگ کے اِس عذاب کے ذمہ داروں کو بھول سکتے ہیں؟ یہ ووٹرز اپنا ووٹ کاسٹ کرنے سے قبل یقینا اُس فہرست کو بھی سامنے رکھیں گی، جس میں لوڈشیڈنگ کے اِس عذاب کو اُن پر مُسلط کرنے والے ذمہ داروں کے نام درج ہوں گے۔ متحدہ کی رابطہ کمیٹی کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی پُر اسرار خاموشی کو ختم کر کے عوام کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرتی کہ وہ بجلی کے اِس حالیہ بُحران میں کس کے ساتھ کھڑی ہی؟ موجودہ حکمرانوں کے ساتھ یا کراچی کے عوام کے ساتھ؟ کہ خاموشی کا مطلب نیم رضامندی ہی سمجھا جاتا ہے۔ کراچی کے شہری گومگو کی اِس کیفیت میں مبتلا ہیںکہ متحدہ کی قیادت لوڈشیڈنگ کے اِس الاو ¿ کو دہکانے والوں کی فہرست میں شامل تھی یا اِس الاو ¿ کو بجھانے والوں کی فہرست میں؟ متحدہ قومی موومنٹ کراچی شہر کی اکثریت کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن کراچی کے جن شہریوں نے اپنا حق نمائندگی متحدہ کو سونپ رکھا ہے کیا متحدہ کی قیادت اپنے ووٹروں کی اِن توقعات پر پورا بھی اُتری ہے یا نہیں؟ کراچی کے شہری خود پر ڈھائے جانے والے اِس ظلم کی فریاد لے کر اگر اپنے منتخب نمائندوں کے پاس نہ جائیں تو پھر کہاں جائیں؟ کے ای ایس سی کے چیف ایگزیکٹو تابش گوہر صاحب کے پاس جائیں؟ یہ تابش گوہر صاحب غالباً اِس ملک کی وہ واحد شخصیت ہیں جو پارلیمنٹ کے سامنے بھی خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے ۔موصوف نے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے صاف انکار کردیا تھا اورکوئی مائی کا لال اِنہیں آج تک مجبور نہیں کرسکا ۔ جب موصوف اِس ملک کی پارلیمنٹ کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہوں تو بے چارے صارفین کس شمار و قطار میں شامل ہوں گی؟ اوپر سے اِن صارفین کے منتخب نمائندوں کی خاموشی نے اِنہیں دوہرے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے اِس زہر کا تریاق صرف اور صرف کراچی کے عوامی نمائندوں کے پاس ہی موجود ہے۔ لیکن گھوم پھر کر وہی پُرانا سوال ناگ کے پھن کی طرح سر اُٹھاکر کھڑا ہوجاتا ہے کہ متحدہ کی قیادت کس فہرست میں شامل ہی؟ لوڈشیدنگ کراچی کے شہریوں پر مُسلط کرنے والوں کی فہرست میں یا کراچی کے شہریوں کو لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے والوں کی فہرست میں۔ صرف لوڈشیڈنگ کی مذّمت کرنے اور اِسے ظلم قرار دینے والا بیان جاری کرنے سے تو یہ لوڈشیڈنگ ختم ہونے سے رہی۔ یہ کام تو صارفین خود بھی کرسکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور وہ بھی فوری طور پر ہونے چاہئیں۔ کمیٹیوں اور کمیشنوں کی تشکیل کا وقت گزر چکا ہے۔ "نرم" اور "سخت" نوٹس بھی لیے جاچکے ہیں اور لاتعداد مرتبہ رپورٹس بھی طلب کی جاچکی ہیں۔ لیکن نتیجہ وہی "ڈھاک کے تین پات" ۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ عوام یہ صورحال کب تک برداشت کریں گی؟ برداشت اور صبر کی حدود کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی ختم ضرور ہوجاتی ہیں متحدہ لوڈشیڈنگ کو فوری طور پر ختم کروانے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں تھی لیکن متحدہ کی قیادت وہ ننھا سا قطرہ بھی اِس آگ پر ڈالتی ہوئی دکھائی نہ دی جس کا مظاہرہ ایک ننھی چڑیا نے صدیوں قبل کیا تھا۔ متحدہ تو اب فی الوقت اقتدارسے دست کش ہوگئی لیکن کراچی کے شہری اپنے عوامی نمائندوں کے سامنے چند سوالات پیش کر کے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اِن کے جوابات کے ای ایس سی کی انتظامیہ سے حاصل کر کے اپنے ووٹرز کو آگاہ کریں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ شہر میں ہونے والی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ مختلف علاقوں میں مختلف کیوں ہی؟ کے ای ایس سی کی انتظامیہ نے انصاف کے کس پیمانے کو معیار بنا کر شہر کے مختلف علاقوں کے رہنے والوں کو چھوٹا چور، درمیانہ چور اور بڑا چور قرار دے رکھا ہی؟ اور مزید یہ کہ انصاف کے کس معیار کے تحت ڈیفنس کلفٹن اور شہر کے وہ علاقے جن میں کوئی وزیر، مُشیر، جرنیل، بیوروکریٹ اور بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والی شخصیت رہائش پذیر ہی، اُس علاقے کو لوڈشیڈنگ سے مُستثنیٰ قرار دے رکھا ہی؟ کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ مذکورہ بالا علاقوں میں کوئی ایک بھی "بجلی چور" نہیں پایا جاتا اور اِن علاقوں سے کے ای ایس سی کی ریکوری معجزانہ طور پر سو فیصد ہے۔ جبکہ اربوں کھربوں کے خُورد بُرد کے جتنے بھی اسکینڈل سامنے آرہے ہیں اِن تمام بڑے ڈاکوو ¿ں کی رہائش گاہیں اتفاق سے اِنہی علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ کرپشن میں ملوث تمام بڑے بڑے مگر مچھوں کا کُھرا اِنہی علاقوں کی طرف جاتا نظر آتا ہے۔ لیکن یہ تمام مگر مچھ بجلی کے بلوں کی بروقت ادائیگی کو اپنا فرض اوّلین بلکہ ایمان کا حصّہ سمجھتے ہیں، نہ صرف خود سمجھتے ہیں بلکہ علاقے کے دوسرے رہائشیوں کو ترغیب بھی دلاتے ہیں کہ وہ بجلی کے بل کی بروقت ادائیگی کو اپنا مقدّس فریضہ جان کر، اِس پر سختی کے ساتھ عمل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ صفر ہے۔ مثلاً کراچی کے سابق مئیر نوجوان مصطفیٰ کمال گلشن اقبال کے جس علاقے میں رہائش پذیر ہیں، بجلی کے حالیہ سنگین بُحران سے قبل اُس بلاک میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ صفر تھا کیونکہ اِس بلاک سے کے ای ایس سی کی ریکوری حیرت انگیز طور پر سو فیصد تھی۔ یہ بلاک اُس وقت لوڈشیڈنگ سے مُستثنیٰ قرار دیا گیا تھا جب شہر کے دوسرے علاقے جن میں اٹھانوے فیصد غریب عوام رہائش پذیر ہیں۔ چھ آٹھ اور دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیل رہے تھے جو اب بڑھ کر دس اور بارہ گھنٹے تک جاپہنچا ہے کیونکہ یہ سب لوگ چھوٹی، درمیانی، اور بڑے بجلی چور ہیں۔ لیکن "شرفا" کے یہ علاقے آج بھی چوبیس گھنٹے کے دوران تین مختلف وقفوں میں صرف ایک ایک گھنٹی، یعنی تین گھنٹوں کے لیے بجلی سے محروم کیے جاتے ہیں۔ کیا آپ نے اربوں کھربوں کی کرپشن میں ملوث کسی بھی ڈاکو کو سُرجانی ٹاو ¿ن رنچھوڑلائن، اورنگی ٹاو ¿ن، لائیزایریا، نیو کراچی، لانڈھی کورنگی، رام سوامی، کھارادر اور لیاری میں رہائش پذیر دیکھا ہی؟ نہیں دیکھا ہوگا۔ کیونکہ بڑے چور کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تیسرے درجے کے گھٹیا بجلی چوروں کو منہ لگائے ۔ایک اور سوال یہ ہے کہ سُرجانی ٹاو ¿ن میں رہنے والے کے ای ایس سی کے وہ اکثریتی صارفین جو بجلی کا میٹر لگواتے ہیں اور بروقت بل کی ادائیگی کرتے ہیں وہ کس قانون کے تحت اقلیتی بجلی چوروں کے ساتھ، چوری کے الزام میں 12 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیل رہے ہیں؟ یہ صارفین بجلی بھی مہنگی خریدتے ہیں اور بجلی چور بھی کہلاتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کے ای ایس سی اپنے صارف کو کنکشن مُہیّا کرتے وقت صارف سے یہ تحریری معاہدہ بھی کرتی ہے کہ صارف اپنا بل تو ادا کرے گا ہی، لیکن اُس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علاقے میں رہنے والے دیگر صارفین کو بھی مجبور کرے گا کہ وہ بھی بل ادا کریں؟ اور اپنے کام کاج سے فارغ ہوکر وہ اپنے علاقے میں یہ ڈیوٹی بھی انجام دے گا کہ کسی نے کُنڈا تو نہیں ڈال رکھا ہی؟ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو اُس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو چور کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ایک مزید سوال یہ ہے کہ کیا کے ای ایس سی نے اپنے صارفین کو کنکشن مُہیّا کرتے وقت تحریری طور پر صارف کو آگاہ کیا تھا کہ اُسے بجلی اُسی وقت مُہیّا کی جائے گی، جب سوئی سدرن گیس کا محکمہ کے ای ایس سی کو گیس فراہم کرے گا۔ اگر ایسا ہی تھا تو صارف کو بجائے کے ای ایس سی سے کنکشن حاصل کرنے کے ایس ایس جی سے کنکشن حاصل کرنے کے لیے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ کیا متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے اپنے ووٹروں کے مطالبے پر کے ای ایس سی کی انتظامیہ سے اِن سوالات کے جوابات حاصل کر کے کراچی کے عوام کو آگاہ کیا ؟ متحدہ کی قیادت اِس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرے کہ اٹھانوے فیصد غریب عوام کی نمائندگی کا جو علم لیکر، وہ میدانِ سیاست میں وارد ہوئی تھی۔ دوفیصد جاگیردارطبقے نے غیر محسوس طریقے سے رفتہ رفتہ اِسکی قیادت کو اپنے طبقے میں تو شامل نہیں کرلیا ہی؟ اگر ایسا ہے تو اب بھی وقت ہے کہ اِسکی قیادت واپس اپنے طبقے کی طرف لوٹ آئے ا ور جاگیرداروں کا ساتھ چھوڑدے۔

انہوں نے جو ابھی حکومت سے علیحدگی اختیار کی ہے وہ بھی صرف اپنی سیٹوں کے لیے ہے نا کہ اپنے عوام کی بہتری کے لیے 


کالم جاوید چودھری 
image.png 
idr5.gif




story1.gif






--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197

No comments:

Post a Comment