السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
برما میں خون مسلم کی ارزانی -آخری قسط
مسعود انور 2012-08-06
ایشیا و افریقہ کا اس وقت شائد ہی کوئی خطہ ایسا بچا ہو جہاں پر خون کی ہولی نہیں کھیلی جارہی۔ کسی نہ کسی عنوان ان دونوں عظیم براعظموں میں جو زمانہ قدیم سے اولین انسانی تہذیبوں کے امین ہیں، مسلسل نسل کشی کا عمل جاری ہے۔ شمالی افریقہ کے ننھے سے ملک روانڈا کی مثال لیجیے جہاں پر1994ء میں ہوتو قبائل نے تتسی قبائل کی نسل کشی کا عمل شروع کیا اور صرف سو دن کے اندر اندر پانچ لاکھ کی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس پورے خونی کھیل میں دس لاکھ سے زائد افراد مارے گئے جس میں وہ ہوتو افراد بھی شامل تھے جو امن کے حامی تھے۔ ان کو بھی ہوتو ملیشیا کے جنگجوؤں نے دشمنوں کا ساتھی ہونے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ موت کے اس ننگے ناچ میں برطانیہ و فرانس دونوں شامل تھے۔ فرانس روانڈا کی ہوتو حکومت کو اسلحہ فراہم کررہا تھا اور برطانیہ بذریعہ یوگنڈا تتسی قبائل کو۔ یہ دونوں مہذب حکومتیں قتل و غارت گری کو روکنے کے بجائے اس آگ کو مزید ایندھن فراہم کررہی تھیں۔ اس طرح روانڈا کی بیس فیصد آبادی چند ماہ میں ہی کم ہوگئی اور بے کار کھانے والوں سے جان چھوٹ گئی۔ جہاں جہاں پر شیطان کے ان ایجنٹوں کو موقع ملا وہاں وہاں پر انہوں نے بڑے پیمانے پر انسانی نسل کشی کی۔ بوسنیا کی مثال زیادہ پرانی نہیں ہے۔ عراق کا جب مقاطعہ کیا گیا تو صرف ادویات کے نہ ہونے سے مرنے والے بچوں کی تعداد کا تخمینہ پانچ لاکھ سالانہ تھا۔ لیبیا پر بمباری کے دوران جس بری طرح نسلی تطہیر کی گئی اور مخالفین کا بلا وجہ قتل عام کیا گیا وہ بھی اب تاریخ کا حصہ ہے۔ افغانستان، عراق، ایران، شام، مصر، یمن، صومالیہ، اریٹیریا، فلسطین، لبنان، پاکستان، کشمیر، بھارت، بنگلہ دیش غرض کون سا ملک یا علاقہ ہے جہاں پر روزانہ بڑے پیمانے پر انسانی نسل کشی نہیں کی جارہی۔ صرف شام کے ہی المیہ میں چالیس لاکھ مسلمانوں (شیعہ و سنی دونوں) کے مرنے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ برما میں ہونے والی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی بھی روانڈا کے طرز کا ایک عمل ہے۔ جس کا واحد مقصد دنیا سے بے کار کھانے والوں کا خاتمہ ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام سے شیطان کے ان ایجنٹوں کا دہرا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ ایک طرف تو نسل انسانی کے انبوہ سے نجات ملتی ہے تو دوسری جانب ایک اللہ کے ماننے والوں کا خاتمہ کرکے شیطان کی مزید خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے۔ بات اتنی نہیں ہے کہ شیطان اور اس کے ایجنٹ کس طرح پوری دنیا میں نسل انسانی اور خصوصا مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔ وہ تو جو کررہے ہیں بالکل درست کررہے ہیں۔ ان کا یہی ہدف ہے جس پر وہ کامیابی کے ساتھ عمل کررہے ہیں۔ شیطان روز ازل سے انسانوں کا دشمن ہے جس پران کو تنقید کا نشانہ بنانا لاحاصل ہے۔ اصل بات ہمارا طرز عمل ہے۔ ان کالموں کے آغاز میں، میں نے چند سوالات اٹھائے تھے۔ آئیے ایک مرتبہ پھر ان سوالات کو دیکھتے ہیں۔ میرے پہلے کالم سے اقتباس اور پھر اس پر بات۔ برما کے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو دیکھیں تو کئی سوال ایک ساتھ اٹھتے ہیں۔ اگر ان سوالوں کے جوابات بوجھ لیے جائیں تو کہانی کو سمجھنا انتہائی آسان ہوجاتا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ برماکی فوجی آمریت پر جمہوریت کے پرستاروں کے پیٹ میں کیوں درد نہیں اٹھتا؟ اس قتل عام پر امن کی نوبل یافتہ برمی قائد حزب اختلاف کو بھی کو ئی اعتراض نہیں ہے، پوری دنیا کا میڈیا اس پورے المیہ کا کیوں بلیک آؤٹ کیے ہوئے ہے، پاکستان کا میڈیا کیوں اسی لائن کو فالو کررہاہے، سارے اسلامی ممالک کی آنکھیں کیوں بند ہیں، اسلامی ممالک کی تنظیم کو نیند سے جگانے کی کوئی کوشش کسی بھی طرف سے کیوں نہیں کی جارہی، یہ المیہ پہلی مرتبہ تو رونما ہوا نہیں ہے تو پھر اس کی روک تھام کی کوششیں کیوں نہ کی گئیں، کیا برمی فوجی حکومت اتنی طاقتور ہے کہ جو چاہے کر گزرے، القاعدہ اور امارات اسلامی قسم کی چیزیں جو اسلامی ممالک میں تو مسلسل قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں ان کو یہ مسلمان کیوں نظر نہیں آتے۔ یمن، شام، عراق، مالی، سوڈان اور پاکستان میں تو روز کسی مزار اور امام باڑے یا مخالف مسلک کو نشانہ بنایا جاتا ہے مگر برما کا نام لینے پر کیوں جلتے ہیں، سنی تحریک اور تبلیغی جماعت جو جنوبی افریقہ ہی نہیں بنگلہ دیش و بھارت تک ان کی مار ہے مگر برما کے مسلمانوں کے قتل عام پر ان کی بھی زباں بندی ہے، آخر کیوں؟ یہ اور ان جیسے کئی سوالات ہیںجو حیرت انگیز ہیں۔ لگتا ہے کہ جو بھی کچھ ہورہا ہے وہ اتفاقی طور پر ہورہا ہے۔ پوری صورتحال چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ اسلامی ممالک کی حکومتیں ہوں یا پھر یہاں کی حزب اختلاف، سیکولر پارٹیاں ہوں یا مذہبی لبادہ میں ملبوس پارٹیاں، لسانیت یا قومیت کے نام پر قتل عام کرنے والے جتھے ہوں یا اسلام کے نام پر دھماکے کرنے والے گروپ، یہ سب کے سب اسی شیطان کے فرستادہ ہیں جو پوری دنیا پر ایک شیطانی عالمگیر حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ نیم دلی کے ساتھ مظاہرے، ان متاثرین کے لیے راشن و خیموں کی اپیل اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ دنیا میں دو ہی جماعتیں ہیں۔ ایک شیطان کی اور دوسری اللہ کے ماننے والوں کی۔ جہاں جہاں پر انسانی نسل کشی ہورہی ہے اس کی مخالفت کرنا ایک اللہ کے ماننے والوں کا فرض ہے۔ چاہے یہ روانڈا میں ہی کیوں نہ ہو۔ یہ نیم دلی سے مظاہرے صرف اور صرف عوام کے جذبات ٹھنڈے کرنے کے طریقے ہیں۔ وگرنہ قتل عام مظاہروں سے نہیں رکتے۔ اردو فلموں کی طرح جس میں ہیروئن ولن سے چیخ چیخ کر کہتی رہتی ہے، چھوڑ کمینے کہنے سے بات نہیں بنتی۔ اس کے لیے حکومتوں کا دباؤ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم، سارک ممالک کی تنظیم، اقوام متحدہ سمیت تمام فورم استعمال کرنے ہوتے ہیں۔ اگر ہماری حکومت نہیں ہلتی تو دوست ممالک کی حکومتوں کو کام میں لائیں۔ ورنہ سمجھ جائیے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازش کو پہچانیے، اس کے ایجنٹوں کو ہر نقاب میں پہچانیے، ہر جگہ پر اس کی مزاحمت کیجیے۔ خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی اس سے خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔(الاختتام) |
No comments:
Post a Comment