عدالت کی توہین کا سرٹیفکیٹ
ذاکر حسین
-سر پھٹنے لگتاہے جب عوام کے مسائل اور اسلام آباد میں ہونے والی حکومت کی ترجیحات کارکردگی اور پھرتیوں کو دیکھتے ہیں تو۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ کاش !کوئی ایسی جگہ میسر ہو جہاں نہ اخبار ہو نہ ٹی وی چینلز نہ ریڈیو نہ انٹر نیٹ۔تاکہ معلوم ہی نہ ہو سکے کہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ پیپلز پارٹی کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے کرپشن اور اسکا تحفظ۔ بلکہ زرداری صاحب کے چھ کروڑ ڈالر کا تحفظ۔پھر انکے اتحادی بھی ہیں جو اپنے مفادات اور مصلحتوں کے پیش نظر ان کے غلام بنے ہوئے ہیں ۔قربان جائیں پیپلز پارٹی کے اُن رہنماؤں اور ان کے اتحادیوں پر جو عوام کے سامنے تو اختلافات دکھاتے ہیں لیکن جب فیصلہ کن موقعہ آتا ہے تو ایوان صدر کی دہلیز پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔کل کا مورخ جب اس وقت کی تاریخ لکھے گا توکیا ان مفاد پرست اتحادیوں کوبخش دے گا۔ کیا دنیاکا کوئی غیر جانبدار قانونی مبصر ثابت کر سکتا ہے کہ ایسی کون سی انتہائی ضروری قانونی پیچیدگی پیش آ گئی تھی جس کو دور کرنے کے لیے انتہائی عجلت میں توہین عدالت کا قانون بنانا پڑا ۔ ایسا قانون جس پر پیپلز پارٹی کے اپنے ہی قانون دان متفق نہیں ۔ جس کے بارے میں فخرالدین جی ابراہیم جیسے معتبر اور غیر جانبدار قانونی مبصر کو کہنا پڑا کہ اس قانون کو سمجھنے کے لیے چار فخرالدین جی ابراہیم چاہیں ۔پھر ایسا قانون بنانے والی پارلیمنٹ اوور پارلیمنٹ کے اراکین کیا معزز کہلانے کی حق دار ہیں؟کون کرے گا ان کی عزت۔ ماہرین کے مطابق یہ قانون ہے بھی آرٹیکل 204کے متضاد۔اس لیے عدالت اسے منسوخ کر دے گی۔یعنی پیپلز پارٹی کو پھر سوپیاز کے ساتھ سو جوتے کھانا پڑیں گے۔ پھریہ اسلام کے روح اور تعلیمات کے بھی منافی ہے۔کیا یہ وزراحضرت علی ؓ سے زیادہ سوجھ بوجھ علم والے اور معتبر ہیں جن کے خلاف ان کی ہی خلافت کے دوران فیصلہ آیا تھا قاضی کا تو ایک لفظ تک نہیں کہا تھا حالانکہ یہ سچے تھے لیکن اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے گواہ پیش نہیں کر سکے تھے اپنے بیٹے کے سوا۔جبکہ بیٹے کی گواہی کو قبول نہیں کیا تھا قاضی نے باپ کے حق میں۔ اس قانون کے بننے سے کس کو فائدہ پہنچے گا'اگر یہ بنیادی حق ہے تو صرف وزیر اعظم 'وزرا وغیرہ کو ہی کیوں حاصل ہے ۔ مجھے اور آپ کو کیوں نہیں۔دنیا کا کون سے آدمی ایسا ہے جس کے خلاف فیصلہ آئے تو اس کو دکھ نہ ہو۔اس کا پھر یہ مطلب ہوا کہ جس کے خلاف بھی فیصلہ آئے وہ ججوں کے خلاف پریس کانفرنسیں شروع کر دے۔نعرے بازی پر اُتر آئے۔ اگر یہ رسم چل نکلی تو بعید نہیں کہ ججوں کے خلاف جلسے جلوس ریلیاں نکلناشروع ہو جائیں۔کوئی بھی طاقتور چند ہزار کا جلوس لے کر اسلام ٓباد پہنچ جائے گا۔ہم کہا ں جارہے ہیں یا لے جایا جا رہا ہے۔ پھر شائستہ الفاظ یا انداز کی تعریف کون کرئے گا ۔اس کی حدود کون متعین کرے گا۔سو کے قریب لگ بھگ وزیروں کی فوج کو کھلا لائسنس دے دیا گیا ہے عدلیہ کے فیصلوں کا تمسخر اُڑانے کا۔ اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ یہ سلسلہ یہاں تک ہی رہے گا۔کل صوبائی وزرا کو بھی یہ چھتری مہیا کی جائے گی پھر تمام منتخب اراکین ۔ بعید نہیں کہ پھر سرکاری ملازمین کو بھی اس لسٹ میں شامل کر دیا جائے۔ کیا حکومت کے پاس یہی ایک کام رہ گیا تھا کرنے کو۔کیا اس قانون کے پاس ہونے سے ملک کو لوڈ شیڈنگ سے نجات مل گئی ہے۔ یا کرپشن میں پاکستان آخری نمبر پر چلا گیا ہے یاپاکستان کے ساٹھ ارب ڈالر کے بیرونی یا کھربوں کے اندرونی قرضے کم ہوئے ہیں یا ہوںگے۔ یا وطن عزیز کی معاشی گروتھ ریٹ آٹھ دس فیصد ہو گئی ہے یا ہو جائے گی ۔ یا تجارتی خسارہ کم ہوا ہے یا ہوگا یا بجٹ خسارے سے نکل کر سرپلس میں ہوجائے گا۔یا بند انڈسٹریز پھر سے چل پڑیں گی یا نئے کارخانے لگیں گے یا بے روزگاروں کو حکومت اس قانون کے بعد روزگار مہیا کرنے کے قابل ہو جائے گی یاوہ شرح خواندگی 95 فیصد کر سکیں گے یا غریب کے کچن کا خرچہ آدھا کر دیں گے۔یا عوام کو دہشت گردوں سے نجات مل جائے گی یا کم از اکم اسٹریٹ کرائمز کو ہی ختم کر دیں گے۔ آخر ایسا کون سے کام ہے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اراکین اس قانون کے ذریعے عوام کے مفاد میں کریں گے جو پہلے ممکن نہیں تھا۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اراکین ملک میں روزانہ 8 ارب ر وپے کی ہونے والی کرپشن کی روک تھام کیوںنہیں کرتے ۔قومی قرضے 12 کھرب کے ہو چکے ہیں ان کا تدارک کیوں نہیں کرتے ۔پی آئی اے کا خسارہ 120 ارب کا ہو چکا ہے 'ریلوے کی120 مسافراور تمام مال گاڑیاں بند نہ ہو چکی ہوہیں خسارہ40 ارب روپے تک ہو گیا ہے اس کا کوئی حل کیو ں نہیں نکالتے۔ پاکستان اسٹیل جو ان کی حکومت سے پہلے چوبیس ارب روپے سالانہ منافع کما رہی تھی کیسے 110ارب روپے کی مقروض ہوئی ۔ پانچ سو ارب روپے چند بڑے سرکاری اداروں کو چلانے کے لیے ہر سال کیوں دینا پڑتے ۔ان کے دور میں حاجیوںتک کو کیوں لوٹا گیا ۔کیا توہین عدالت کا قانون بننا سرکاری اداروں کو تباہ ہونے سے بچانے سے زیادہ ضروری تھا۔ جس طرح یہ چٹان بن گے ہیں زرداری صاحب کے مفاد کے لیے اگر اتنی کمٹمنٹ پاکستان اور اس کے عوام کے مفاد سے شو کرتے تو آج ملک بجلی کے بحران کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوبا نہ ہوتا۔ ہائیڈروپاور پلانٹ کے لیے منگوائی جانے والی مشینری چار سالوں سے کراچی کی بندر گاہ پر پڑی زنگ آلودہ نہ ہورہی ہوتی ۔ 23ارب روپے تھرکول اورہائیڈرو پراجیکٹ کے بجائے رینٹل پاور میں نہ لگا تے ۔اگر یہ 23ارب روپے رینٹل پاور کے بجائے تھرکول میں لگا دیتے تو آج ہمیں اس سے دس بارہ ہزار میگا واٹ سستی ترین بجلی مل رہی ہوتی جس سے ہماری کل پیداوار بیس ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکی ہوتی ۔جس کی وجہ سے آج کوئی کارخانہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بند نہ ہوتا۔یہ سستی بجلی اگر کسانوں کو مفت دی جاتی تو زرعی پیداوار میں ہم نہ صرف خود کفیل ہوتے بلکہ ایکسپورٹ کر کے اربوں ڈالر زرمبادلہ بھی کماتے اور ہزاروں کسانوں کو روزگار بھی ملتا۔اگر تھرکول سے حاصل ہونیوالی سستی بجلی کارخانوں کو مہیا کی جاتی تو وہ گیس کی ضرورت سے آزاد ہو جاتے جس سے گھروں کے چولہے جلتے۔تمام ٹریفک کو سی این جی لاکر سالانہ اربوں ڈالر کا پٹرول درآمد کرنے سے بچ جاتے۔اس تھر کول سے بجلی کے ساتھ ساتھ گیس ڈیزل اور پٹرول وافر مقدار میں الگ ملتا۔لیکن ان کے نزدیک آزاد عدلیہ کو قابو کرنا ان سے زیادہ اہم ہے۔ کیا اگر یہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہیں تو پھر انھیں احساس کیوں نہیں کہ اٹھارہ کروڑآبادی میںسے 60 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔لگ بھگ3کروڑ رات کو بھوکے سوتے ہیں ۔ تقریباً 6کروڑ آبادی کی ساری بھاگ دوڑدو وقت کی روٹی تک محدود ہے ۔ کوئی ساڑھے 6 کروڑآبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔شہروں کی 80 فیصد سے زائد آبادی سیوریج ملاپانی پیتے ہیں ۔پانچ کروڑ شہریوں کو صحت و صفائی کی سہولتوںسے محروم ہیں۔کوئی ایک لاکھ پاکستانی ایڈزAID) / HIV) تقریباً16لاکھ ٹی بی کے مریض ہیں ۔ہر سال کوئی 27ہزارخواتین زچگی کے دوران مرتی ہیں۔ پاکستان شرح خواندگی میں160 ویں، انسانی حقوق اور ترقی کے معیار سےایک سو پنتالیسویں نمبرپر ہے ہمارے 70فیصدبچے میٹرک تک کی تعلیم سے بھی محروم ہیں ۔ایسا ہرگز نہیں کہ انھیںاس کی خبر نہیں ۔ بس یہ کام ان کے نزدیک اتناضروری نہیں جتنا ایک فرد کی کرپشن بچانا ہے۔لیکن افسوس!کہ یہ پھر بھی خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں ۔عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں۔اور ہم عوام بھی انھیں کو ہی بار بار ووٹ دیتے ہیں۔ |
No comments:
Post a Comment