امریکی سفیر کی ''غیر سفارتی '' باتیں
- پروفیسر شمیم اختر امریکی سفیر کیمرون منٹر عرف جنتر منتر نے 10 جولائی کو بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان پر قابض امریکی اور ناٹو فوج کو رسد کی بحالی پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے کہا کہ یہ کافی نہیں ہے بلکہ پاکستان کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ وہی ڈومور کا جگالی کیا ہوا فقرہ جو کثرت استعمال سے اپنے معنی کھو چکا ہے اور مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ بہت کچھ کرنے کی فرمائش بھی جنترمنتر نے واضح کر دی۔ یعنی پاکستان اندرونِ ملک دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا قلع قمع کرے کیونکہ وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے مہیب خطرہ ہیں۔ سفیر نے ان کو پاکستان کا دشمن قرار دیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر پاکستان کے حکمرانوں نے رسد کی بحالی کو ڈرون حملوں سے مشروط کر دیا ہوتا تو معاملہ برابر کا تصور کیا جاتا اور یوں بھی امریکی افغانستان سے بھاگنے کے لیے پاکستان سے گزرگاہ کی سہولت مانگ رہا ہے، تو اس کو واپسی کے لیے پاکستان کی سرزمین سے جانے کی اجازت دے دینی چاہیے لیکن اگر وہ اس راہداری کو افغانستان پر قابض فوج کو کمک اور اسلحہ فراہم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ اس کا فیصلہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی بجائے پارلیمان کو کرنا چاہیے تھا جسے بدعنوان حکمران ریاست کا بالادست ترین ادارہ سمجھتے ہیں اور جس میں ان کی اور ان کے اتحادیوں کی اکثریت ہے۔ لیکن چند وزراء پر مشتمل کوئی کمیٹی پارلیمان کو نظر انداز کرتے ہوئے ناٹو رسد کی بحالی کا فیصلہ کرے تو یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ اور غیر مشروط طور پر رسد کی بحالی غیرملکی طاقت کے سامنے سفارتی سپر ڈالنے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ جنتر منتر نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے تحکمانہ لہجہ اختیار کیا اور امریکہ کے تابعدار حکمرانوں کو اپنے ہموطنوں کو مارنے کا حکم دے دیا لیکن امریکی سفیر یا تو خود فریبی میں مبتلا ہے یا وہ سیاسی بصیرت سے بالکل عاری ہے کہ اگر نواز شریف یا عمران خان نے اس کو یقین دلادیا کہ وہ امریکہ کے حامی ہیں۔ (جنگ 11 جولائی 2012ئ) تو اس نے سمجھ لیا کہ ملک کے اٹھارہ کروڑ غیور عوام ان حضرات کی جیب میں ہیں جو انہیں امریکہ کی حمایت پر آمادہ کر لیں گے۔ منتر جنتر کے بارے میں سنا تھا کہ وہ امریکی جامعہ میں پروفیسر تھا لیکن شاید وہ پیشہ اسے راس نہیں آیا اس لیے وہ سفیر کے بھیس میں جاسوسی کرنے لگا۔ میں امریکی سفارتی عملے کو جاسوس اور تخریب کار سمجھتا ہوں کیونکہ وکی لیکس نے امریکی وزیرخارجہ بڈھی گھوڑی لال لگام یعنی ہلیری کلنٹن کی سفارت کاروں کو ہدایت نامے کے ذریعے انہیں پاکستان کے حکام کے تفصیلی کوائف ان کی سرگرمیوں، ان کے غیر ملکی دوروں حتیٰ کہ ان کے ہوائی جہاز کے ٹکٹوں کا ریکارڈ محفوظ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ چنانچہ ریمنڈ ڈیوس کا اسیکنڈل اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح سی آئی اے نے اسے بھرتی کر کے لاہور کے قونصل خانے میں ملازمت دلوائی اور جب اس نے لاہور میں دن دہاڑے پاکستان کے دو شہریوں کو قتل کر ڈالا اور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو ابرہہ ثانی اوباما نے اسے پاکستان کی عدالت کے روبرو پیش کیے جانے پر اس بناء پر اعتراض کیا کہ ریمنڈ ڈیوس سفارت کار ہے اس لیے مقامی عدالت کو اس کے مقدمے کی سماعت کا اختیار نہیں ہے یہی جھوٹ کیمرون منٹر نے 16 جولائی کورات دس بجے ایکسپریس ٹی وی چینل پر دہرایا اور بڑی دریدہ دہنی سے کہا کہ امریکی سفارت کار کی حیثیت سے اس پر پاکستان کی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ اس بارے میں اوباما اور اس کے سفیر کیمرون منٹر نے سفید جھوٹ بولا کیونکہ قونصل خانے کا ملازم سفارت کار نہیں ہوتا اس لیے اسے سفارتی استثناء حاصل نہیں تھا اور یہی موقف پاکستان کے اس وقت کے وزیرخارجہ نے اختیار کیا تھا جس کی بنا پر انہیں ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور امریکہ کے تابعدار حکام نے پراسرار طور پر اس قاتل کو خون بہا کے عوض رہا کرا دیا۔ کیمرون منٹر کو تو علم ہو گا کہ مشتبہ امریکی بند صندوقوں سمیت ائیر پورٹ پر اترتے ہیں اور جب پاکستان کسٹم کا عملہ ضابطے کے تحت ان کے سامان کی تلاشی لینا چاہتا ہے تو امریکی قونصل خانے اور سفارت خانے کا عملہ امیگریشن اور کسٹم کے دفتر پر دھاوا بول دیتا ہے اور ''اوپر'' سے ٹیلی فون کروا کر مشتبہ سامان چھڑا لے جاتا ہے۔ امریکی سفیر دونوں ممالک میں دوستی اور باہمی اعتماد کی بات کرتا ہے تو میرا اس سے سوال ہے کہ کیا امریکہ کے ائیرپورٹ پر معزز پاکستانیوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک نہیں کیا جاتا؟ اگر منتر جنتر کا حافظہ اس کا ساتھ نہیں دے رہا تو میں اسے یاد دلاتا ہوں کہ جب پاکستان کا سابق صدر مشرف اپنے وزیرخارجہ عبدالستار، وزیرتجارت رزاق دائود اور ملٹری سیکریٹری یا مشیر لیفٹینٹ جنرل راشد قریشی کے ہمراہ صدر جارج بش سے ملنے گیا تھا تو اس کے علاوہ باقی سبھوں کے موزے جوتے اور نہ جانے کیا کیا اتروا کر ان کی ننگا جھولی لی گئی تھی؟ کیا اس ناروا اور ہتک آمیز سلوک کے باوجود یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے عوام امریکہ کو اپنا دوست کہیں۔ جنتر منتر کو تو معلوم ہو گا کہ رائے عامہ کاجائزہ لینے والے ایک موقر امریکی ادارے پی ای ڈبلیو نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی 74 فیصد آبادی امریکہ کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ اگر اب بھی اس میں کوئی شک باقی رہ گیا ہو تو امریکی جاسوسوں اور سفارت کاروں (اصل میں دونوں ایک ہیں) نے ناٹو رسد کی بحالی کے خلاف دفاع پاکستان کونسل کا عظیم الشان لانگ مارچ تو دیکھا ہو گا جس نے لاہور سے اسلام آباد تک کا چار گھنٹوں کا سفر چالیس گھنٹوں میں طے کیا؟ (جسارت کراچی 13 جولائی 2012ئ) اگر نواز شریف اور عمران خان نے اس 50 کلومیٹر لمبے جلوس میں شرکت نہیں کی تو اس سے کوئی فرق پڑا۔ اگر منتر جنتر میں اتنی بصیرت بھی ہوتی جتنی انقلاب ایران کے وقت امریکی سفیر میں تھی جس نے اپنے صدر جمی کارٹر کو مشورہ دیا تھا کہ اب شاہ ایران کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اور امام خمینی کو عوام کی حمایت حاصل ہے لہٰذا امریکہ کو انقلابی حکومت کو تسلیم کر لینا چاہیے اور ان سے معمول کے تعلقات قائم کرلینا چاہیے تو وہ اوباما کو مشورہ دیتا کہ وہ ڈرون حملوں سے باز آجائے اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ لیکن وہ اپنے روسیاہ صدر کو جو خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کا اعلان کر چکا ہے کو پاکستان کے خلاف اکساتا رہا۔ اس ضمن میں میں اس کے اس بیان کا حوالہ دے رہا ہوں جو اس نے 17 ستمبر 2011ء کو دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ حقانی عسکریت پسندوں سے افواج پاکستان کے روابط کے ٹھوس ثبوت پیش کر سکتا ہے۔ (ڈان 18 ستمبر 2011ئ) امریکہ کا پاکستان پر اعتماد کا دعویٰ اس انکشاف سے غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ اس نے پاکستان میں زلزلے کے موقع پر امدادی ٹیم کی بھیس میں جاسوس بھیجے تھے تاکہ وہ پاکستان کے جوہری اسلحہ خانے کو تباہ کر دیں۔ یہ بات پاکستان کی افواج کے سربراہ جنرل کیانی نے بیس اکتوبر 2011ء کو اوباما سے ملاقات کے دوران اپنے 14 صفحات پر مبنی مراسلے میں تحریر کی تھی مراسلے میں جنرل کیانی نے امریکہ پر کھل کر الزام لگایا تھا کہ وہ پاکستان کا جوہری اسلحہ تباہ کرنا چاہتا ہے نیز یہ کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اس پرغلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (ڈان 15جولائی 2012ئ) کیمرون منٹر کیا نہیں جانتا کہ امریکہ نے بلیک واٹر/ ڈائن کور میں کرائے کے ایجنٹ بھرتی کر کے انہیں پاکستان کے طول و عرض میں پھیلا رکھا ہے، جو سرکاری عمارتوں حتیٰ کہ جی ایچ کیو، مہران ہوئی اڈے، آئی ایس آئی اور پولیس ٹریننگ سینیٹر میں تخریب کاری کرتے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیرداخلہ نے جو اس وقت تک دہری شہریت کے حامل تھے نے یہ چیلنج کیا تھا کہ اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ پاکستان میں بلیک واٹر کے ایجنٹ موجود ہیں تو میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائوں گا۔ موصوف کی بدقسمتی کہ انہی دنوں امریکہ کا وزیردفاع رابرٹ گیٹس اسلام آباد میں وارد ہوا تو صحافیوں نے یہی سوال اس سے بھی کیا تو اس نے نہایت صاف گوئی سے اس کا اعتراف کر لیا کہ امریکہ نے اندرون پاکستان انتہا پسندوں کو ٹھکانے لگانے اور امریکی حکام کی حفاظت کے لیے بلیک واٹر کو پاکستان میں تعینات کیا ہوا ہے۔ اور وہ انتہا پسند کون تھے جنہیں امریکی ایجنٹ ٹھکانے لگانے آتے تھے؟ علمائ، وکلائ، اساتذہ، طلبا، صحافی، مزدور، ڈاکٹر وغیرہ وغیرہ۔ امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر کے ایجنٹ کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور اور ملک کے دیگر علاقوں میں شہریوں کا قتل کرا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ اور نسلی منافرت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس طرح امریکی ایجنٹ دنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان ناکام ریاست ہے۔ کیا امریکی سفیر پاکستان کے خواص و عوام کو اتنا بے وقوف سمجھتا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ امریکہ نے بھارت کوجوہری ٹیکنالوجی فراہم کی لیکن پاکستان کو پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی منتقل کرنے سے انکار کر دیا؟ ایسی ذلت پاکستانی حکومت برداشت کر سکتی ہے لیکن پاکستان قوم ہرگز اسے برداشت نہیں کر سکتی۔ امریکی سفیر، امریکی وزیرخارجہ، امریکی صدر اور امریکہ کے زبان دراز سینیٹر اور ارکان کانگریس اپنے جاسوس شکیل آفریدی کو سزا سنانے پر پاکستان کی عدالت کے فیصلے کی مذمت کی ہے اور اس کی تیس کروڑ تینتیس لاکھ ڈالر امداد بند کر دی ہے۔ یہ پاکستان کی عدلیہ کی توہین ہے جس کی پاداش میں کیمرون منٹر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک سے نکال دینا چاہیے جیسے وینزویلا اور بولیویا نے امریکی سفیر کو نکال باہر کیا تھا۔ کیا کر لیا امریکہ نے ان ممالک کا؟ |
No comments:
Post a Comment