جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ''لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں شب سے افضل کوئی رات نہیں ''۔ (لطائف المعارف ص ١٤٥)
جس طرح مسلمانوں کے لیے زمین میں دو عیدیں ہیں اس یطرح فرشتوں کے آسمان میں دو عیدیں ہیں ایک شبِ برأت اور دوسری شبِ قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں عید الفطر اور عید الاضحٰی ہین فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لیے ہیں کہ وہ رات کو سوتے نہیں جب کہ آدمی رات کو سوتے ہیں اس لیے ان کی عیدیں دن کو ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین ص ٤٤٩)
تقسیمِ امور کی رات
ارشاد باری تعالیٰ ہوا، ''قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام''۔ (الدخان ٢ تا ٤ ، کنزالایمان)
''اس رات سے مراد شبِ قدر ہے یا شبِ برأت'' (خزائن العرفان) ان آیات کی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ''لیلۃ مبارکۃ'' سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے ۔ اس رات میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشہ نہیں ہوتی ۔ اس روایت کو ابن جریر، ابن منذر اور ابنِ ابی حاتم نے بھی لکھا ہے۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کا کام لیلۃ القدر مین مکمل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔ (ماثبت من السنہ ص ١٩٤)
علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٢٨)
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ مین تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امور ہیں ۔
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرمائیے۔ ارشاد ہوا آئندہ سال مین جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات مین لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتاہے۔ (مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧)
حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں،
''شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کو ایک فہرست دے کر حکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کو آئندہ سال مقررہ وقتوں پر قبض کرنا۔ تو اس شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے۔ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوا رہا ہوتا ہے حالانکہ ان کے نام مُردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد ٤ ص ٣١٧ ، ماثبت من السنہ ص ١٩٣)
حضرت عثمان بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٢٦، شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٨٦)
چونکہ یہ رات گذشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الہٰی میں پیش ہونے اور آئندہ سال ملنے والی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لیے اس رات میں عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کا باعث ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔
مغفرت کی رات
شبِ برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں ۔
(١) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،
ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ترمذی جلد ١ ص ١٥٦، ابن ماجہ ص ١٠٠، مسند احمد جلد ٦ ص ٢٣٨، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧، مصنف ابنِ ابی شعبہ ج ١ ص ٣٣٧، شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٧٩)
شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کو پہنچ گئی۔
(٢) حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
''شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور اس شب میں ہر کسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے''۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٨٠)
(٣) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب مین اپنے رحم و کرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے''۔ (ابنِ ماجہ ص ١٠١، شعب الایمان ج ٣ ص ٣٨٢، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧)
(٤) حضرت ابوہریرہ ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو ثعلیۃ اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایسا ہی مضمون مروی ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٦٥)
(٥) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ
آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ''شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو شخصوں کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ پرور اور دوسرا کسی کو ناحق قتل کرنے والا''۔ (مسند احمد ج ٢ ص ١٧٦، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٨)
(٦) امام بیہقی نے شعب الایمان (ج ٣ ص ٣٨٤) میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کا بھی ذکر رشتے ناتے توڑنے والا، بطور تکبر ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا، ماں باپ کا نافرمان، شراب نوشی کرنے والے۔
(٧) غنیۃ الطالبین ص ٤٤٩ پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی طویل حدیچ میں مزید ان لوگوں کا بھی ذکر ہے جادوگر، کاہن، سود خور اور بد کار، یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کیے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی۔ پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد از جلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اور بخشش و مغفرت کے حقدار ہوجائیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہوا ''اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے نصیحت ہوجائے''۔ (التحریم ٨ ، کنزالایمان)
یعنی توبہ ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی گناہوں سے پاک اور عبادتوں سے معمور ہوجائے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کی۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توبۃ النصوح کسے کہتے ہیں اشاد ہوا بندہ اپنے گناہ پر سخت نادم اور شرمدسار ہو۔ پھر بارگاہ الہٰی میں گڑگڑا کر مغفرت مانگے۔ اور گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزد نہ ہوگا۔
رحمت کی رات
شبِ برأت فرشتوں کو بعض امور دئیے جانے اور مسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک او ر خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤں کے قبول ہونے کی رات ہے۔
١۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ''جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے''۔ (شعب الایمان للبیہقی ج٣ ص ٣٨٣)
٢۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔ (ابنِ ماجہ ص ١٠٠، شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٧٨، مشکوٰۃ ج ١ ص ٢٧٨)
اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت و رحمت کی ندا کا ذکر ہے اگرچہ یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں جیسا کہ کتاب کے آغاز میں شبِ بیداری کی فضیلت کو عنوان کے تحت حدیث پاک تحریر کی گئی شبِ برأت ی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے گویا صالحین اور شبِ بیدار مومنوں کے لیے تو ہر رات شبِ برأت ہے مگر یہ رات خطاکاروں کے لیے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے اس لیے ہمیں شاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور ربِ کریم سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگیں ۔ اس شب رحمتِ خداوندی ہر پیاسے کو سیراب کردینا چاہتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔ بقول اقبال، رحمت الہٰی یہ ندا کرتی ہے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں ۔۔۔ راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی نہیں
شبِ بیداری کا اہتمام
شبِ برأت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شبِ بیداری کی اور دوسروں کو بھی شبِ بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان اوپر مذکور ہوا کہ "جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شبِ بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو'' اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علمائے اہلسسنت اور عوام اہلسنت کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ رات میں شبِ بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں،
''تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالد بن معدان، حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر اور حضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہو کر شعبان کی پندرہویں شب میں شبِ بیداری کرتے تھے اور رات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے''۔ (ما ثبت من السنہ ٢٠٢، لطائف المعارف ص ١٤٤)
علامہ ابنِ الحاج مانکی رحمتہ اللہ علیہ شبِ برأت کے متعلق رقم طراز ہیں
''اور کوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے۔ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہیم اس کی بہت تعظیم کرتے اور اس کے آنے سے قبل اس کے لیے تیاری کرتے تھے۔ پھر جب یہ رات آتی تو وہ جوش و جذبہ سے اس کا استقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔" (المدخل ج ١ ص ٣٩٢)
مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مقد رات مین مسجد مین جمع ہوکر عبادات میں مشغول رہانا اور اس رات شبِ بیداری کا اہتمام کرنا تابعین کرام کا طریقہ رہا ہے۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں،
''اب جو شخص شعبان کی پندرہویں رات مین شبِ بیداری کرے تو یہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شبِ برأت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لیے قبرستان تشریف لے گئے تھے۔" (ماثبت من السنہ ص ٢٠٥)
آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت قبور کی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس رات موت یاد آتی ہے۔ اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔ شبِ برأت میں زیارتِ قبور کا واضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کو یاد کریں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہی شبِ بیداری کا اصل مقصد ہے۔
اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا ایمان افروز واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں منقول ہے کہ
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شبِ برأت میں گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کا چہرہ یوں دکھائی دیتا تھا جس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالا گیا ہو۔ آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے فرمایا خدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمند میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اور بچنے کی کوئی امید نہہو۔ پوچھا گیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کی ایسی حالت کیوں ہے؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں ۔ لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھر رد کردی جائیں گی۔ (غنیۃ الطالبین ص ٢٥٠)
اللہ اکبر نیک و متقی لوگوں کا یہ حال ہے جو ہر رات شبِ بیداری کرتے ہیں اور تمام دن اطاعتِ الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے کم نصیب ہیں جو اس مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت و دعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو و لعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں آتش بازی پٹاخے اور دیگر ناجائز امور میں مبتلا ہوکر وی اس مبارک رات کا تقد س پامال کرتے ہیں ۔ حالانکہ آتش بازی اور پٹاخے نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ارد گرد کے لوگوں کی جان کے لیے بھی خطرتے کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسے لوگ ''مال برباد اور گناہ لازم'' کا مصداق ہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوتے ہیں ۔ مجدد برحق اعلیٰ ھضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا۔ ارشاد ہوا،
''اور فضول نہ اڑا بے شک (مال) اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ''۔ (بنی اسرائیل)
شعبان کے روزے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے،
''جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے ناموں کی فہرست ماہِ شعبان مٰں ملک الموت کو دی جاتی ہے اس لیے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرا نام اس وقت فہرست میں لکھا جائے جب کہ میں روزے کی حالت میں ہوں''۔
یہ حدیث پہلے مذکورہ ہو چکی کہ مرنے والوں کے ناموں کی فہرست پندرہویں شعبان کی رات کو تیار کی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ اگرچہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا اس کے باوجود روزہ دار لکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بوقت کتاب (شب) اللہ تعالیٰ روزی کی برکت کو جاری رکھتا ہے۔ (ماثبت من السنہ ١٩٢)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ،
''میں نے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماہِ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا''۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٤٤١)
ایک اور روایت میں فرمایا،
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند دن چھوڑ کر پورے ماہِ شعبان کے روزے رکھتے تھے''۔ (ایضاً)
--
کتاب: مبارک راتیں
تحریر: علامہ سید شاہ تراب الحق قادری
No comments:
Post a Comment