--یہ عذابِ الیم اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے
حافظ محمد ادریس
حضرت علیؓ سے ایک شخص نے پوچھا "حضرت! اگر کوئی مصیبت آجائے تو انسان کیسے سمجھ سکتا ہے کہ آیا یہ مصیبت اللہ کی طرف سے عذاب ہے یا آزمائش؟"آپؓ نے ارشاد فرمایا: اس کا جواب انسان خود دے سکتا ہے۔ اگر مصیبت آنے کے بعد وہ اپنے رب سے قریب تر ہوا ہے تو یہ آزمائش ہے جس پر اسے اجر بھی ملے گا اور اس کے درجات بھی بلند ہوں گے اور مصیبت ٹل بھی جائے گی، جبکہ اس مصیبت کے نتیجے میں انسان اپنے رب سے دور ہوجائے تو یہ عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ گناہ اور بغاوت پر دیتا ہے۔" اس مضمون کو قرآن مجید میں اللہ نے کئی مقامات پر کھول کھول کر بیان فرمایا ہے۔ یہاں صرف ایک مقام کا تذکرہ ہی تفہیم کے لیے کافی ہے۔ ارشادِ باری ہی: "اس (آگ کی) بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹی) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سی) باز آجائیں۔ اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیرلے۔ ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے۔" (سورہ سجدہ 32: 21-22) ہم پاکستانی انفرادی و اجتماعی طور پر اس وقت بے پناہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اللہ کے فرمان اس سرزمین پر جس دھڑلے کے ساتھ پامال کیے جارہے ہیں اور پھر توبہ کی توفیق سے بھی لوگ عاری ہوگئے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ اللہ کی پکڑ اور ناراضی کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے ہم ہر چیز کے محتاج ہوگئے ہیں۔ وعظ و نصیحت کرنے والے اپنا کام کیے جارہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عموماً مولوی صاحب یا مولانا کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ باعمل لوگوں کی باتوں میں تو یقینا اثر ہوتا ہے مگر اکثریت اپنی تاثیر کھوچکی ہے۔ ظاہر ہے کہ آج کے دورِ انحطاط میں جو بیماریاں پوری قوم کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں، اس قوم کے درمیان رہتے ہوئے اس طبقے کا بھی ان سے متاثر ہوجانا بعید از امکان نہیں۔ بااختیار اور دولت پر قابض طبقہ جسے قرآن مترفین (Elite Class) کہتا ہی، جب اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو اس مذہبی طبقے کو اسلام کا نمائندہ سمجھتے ہوئے وہ ان پر وار کرتا ہی، انھیں اضحوکہ بناتا ہے اور اپنے گندے من کی بھڑاس نکالتا ہے۔ اس وقت ملک میں اتفاقِ رائے اور اجماعِ امت کی اشد ضرورت ہی، مگر ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے راہ نماوں کی زبانیں ہر روز شعلے اگلتی ہیں اور قوم عجیب مخمصے میں مبتلا ہے کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ دراصل یہ عذاب اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اگر چھوٹے بچوں کو بھی کھیلتے ہوئے کوئی خطرہ محسوس ہو تو وہ فوراً کھلنڈرا پن چھوڑ کر سنجیدگی اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کے برعکس ان نابالغ سیاسی راہ نماوں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اللہ ان کو ہدایت دے کہ انھیں ابھی تک سنجیدگی اور ذمہ دارانہ طرزعمل اپنانے کی توفیق نہیں مل سکی۔ تازہ ترین دھماکا سربراہِ مملکت آصف علی زرداری صاحب نے کیا ہے جو اپنی دھواں دھار تقریر میں اپنی بیوی کی سوگوار یادوں کو جلا بخش رہے تھے۔ ان کے محسن میاں محمد نوازشریف جنھوں نے اپنی "سیاسی مہارت" کے ذریعے ایک جانب اپنے ساتھ ان کے لیے بھی ملک میں آنے کا راستہ ہموار کیا اور دوسری طرف انھیں ایوانِ صدارت تک پہنچانے کا "کارِخیر" سرانجام دیا، ان کے تابڑ توڑ حملوں کی زد میں آئے۔ زرداری صاحب نہلے پہ دہلا مارتے اور چھکے پہ چھکا لگاتے ہوئے لب کشا ہوئے اور نوازشریف کو گالی دینے کے لیے انھیں کوئی دوسرا مناسب لفظ نہ ملا تو ان پر "مولوی" اور "مولانا" کی پھبتی کسی۔ گویا زرداری صاحب نے اعلان کردیا کہ ہر مذہبی سوچ رکھنے والا شخص ان کا دشمن ہے یا باَلفاظِ دیگر ان کا ہر مخالف مذہبی ہے۔ نوازشریف صاحب کو اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کاٹنا پڑرہی ہے اور زرداری نواز کے اس بے اصولی کھیل میں پاکستان کے عوام بالخصوص صوبہ پنجاب انتقام کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ پانی و بجلی کا محکمہ مرکزی حکومت کے پاس ہے۔ بجلی کی قلت تو پورے ملک کا مشترکہ مسئلہ ہے مگر پنجاب کے بے بس عوام پر گرنے والے اس بجلی بم کے معاملے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیرزادے اور وزیراعظم گیلانی صاحب بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ اس قلت کے عذاب سے بحیثیت ِمجموعی پنجاب اور بالخصوص لاہور کے بعض علاقے کچھ زیادہ ہی حصہ وصول کررہے ہیں۔ یہ بجلی کا عذاب ہو یا بدامنی کا عفریت، بے روزگاری و مہنگائی کا کوڑا ہو یا کرپشن و لوٹ مار کے سانپ بچھو، سب کچھ عوام کے غلط فیصلوں کا نتیجہ اور اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ "خود کردہ را علاجِ نیست۔" جوابِ آں غزل کے طور پر مسلم لیگ (ن) کے راہ نماوں نے بھی آصف زرداری صاحب کے غیر ذمہ دارانہ خطاب پر تندو تیز لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ افسوس ہے کہ انھوں نے بھی ان کی سیاست کو نوڈیرو میں دفن کرنے کے اعلان سے بلاوجہ سندھی عوام کے جذبات مجروح کیے ہیں۔ یہ وقت ان کھلنڈرے سیاست دانوں سے سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ قومی و ملّی عذاب سے نکلنے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنے اور اپنی غلطیوں کا محاسبہ کرنے کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تھیٹر میں بڑھکیں مارنے والے ڈراموں کے بجائے اب سنجیدہ سیاست اپنانے کا یہ نازک لمحہ ہے۔ یہ ناداں آپس میں لڑرہے ہیں اور ہمارے ملک میں رجسٹرڈ تخریب کاری اور سرکاری غنڈہ گردی روزافزوں ترقی کررہی ہے۔ اس سے ہماری مراد دنیا کی سپر طاقت کی غنڈہ گردی اور سینہ زوری ہے۔ ملک کا ہر محب وطن شہری چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ ملک میں امریکی اثر و رسوخ کم کرو اور اس دہشت گردی اور غنڈہ گردی کو کنٹرول کرو، مگر حکمرانوں کے لچھن کچھ اور ہیں۔ امریکی دہشت گرد ویزوں کے ساتھ اور بغیر ویزوں کے بڑی تعداد میں ملک کے حساس مقامات پر براجمان ہیں۔ ان سے نجات وقت کا تقاضا بھی ہے اور پوری قوم کا مطالبہ بھی، مگر ہمارے حکمران کیا مژدے سنارہے ہیں؟ ذرا ذیل میں ملاحظہ فرمائیی:22 جون کو واشنگٹن سے نشر ہونے والی ایک خبر چونکا دینے والی ہے۔ پاکستانی ایمبیسی نے سی آئی اے کے 67 ایجنٹوں کو ویزے جاری کردئیے ہیں، پاکستانی سفارت خانے کے مطابق ان ویزوں کی کلیئرنس آئی ایس آئی کے مشورے سے عمل میں آئی ہے۔ اگر ہمارے فیصلہ کرنے والے اداروں اور ذمہ دارانِ حکومت کے یہی غیر ذمہ دارانہ طور طریقے رہے تو ہر امریکی، ریمنڈ ڈیوس سے ہدایات لے کر یہاں وہ کارروائی دوہرائے گا جو ہمارے ماتھے پر کلنک کا داغ بن کر تاریخ میں ثبت ہوچکی ہے۔ امریکیوں کو یوں فراخ دلی کے ساتھ ویزے دینے والوں کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے مفاد کا تقاضا تو یہ ہے کہ امریکی ایجنٹوں کی پاکستان میں موجودگی بڑھانے کے بجائے ان کی تعداد کم کی جائی، بلکہ بالکل ختم کردی جائے۔ سفارتی عملے کے علاوہ دیگر سرکاری کارندوں کا یہاں پر تعین کسی صورت قابلِ قبول اور پسندیدہ عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امریکا افغانستان سے اپنے زخم چاٹتا ہوا بھاگ رہا ہے۔ اوباما نے اپنے تیس ہزار فوجی دو سال میں اور باقی تمام اس کے اگلے سال واپس بلانے کا روڈمیپ دے دیا ہے اور ان کا "بہادر جرنیل" ڈیوڈ پیٹریاس جولائی کے وسط میں "فتوحات" کے پھریرے لہراتا ہوا واپس چلا جائے گا۔ ہم اس موقع پر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ "خس کم جہاں پاک" کیونکہ جہاں افغانستان سے ان مداخلت کاروں کی شکست اور انخلا ہمارے لیے خوشی کا باعث ہے وہیں پاکستان میں ان کی موجودگی میں اضافہ اور نئے ویزوں کا اجرا باعثِ تشویش و افسوس ہے۔ کیا اگلا براہِ راست میدانِ جنگ پاکستان کی سرزمین ہوگی؟ حکمرانوں سے جواب درکار ہے۔ سی آئی اے کا ڈائریکٹر لیون پنیٹا واشنگٹن میں پریس کے نمائندوں کو نئے ویزوں کی یہ خبر دیتے ہوئے ایک عجیب تمسخر آمیز لہجے میں مسکرا رہا تھا۔ اس کی یہ مسکراہٹ ہر محب وطن پاکستانی کے قلب و جگر کو چھلنی کرنے کا باعث بنی، جبکہ پاکستان کی طرف سے سفیرِ پاکستان سے لے کر پاکستان میں موجود سیاسی و عسکری قائدین خوش نظر آرہے تھے کہ امریکا بہادر نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ وہ ہر کارروائی پاکستان کے مشورے اور مفاہمت سے کرے گا۔ اسے کہتے ہیں "کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں" سوال یہ ہے کہ آخر وہ کارروائی کریں گے کیوں؟ کیا ہمارے اداری، خفیہ ایجنسیاں، نظامِ عدل اور نظام حکومت بالکل مفلوج اور بانجھ ہوچکے ہیں؟ مجھے تو اس دیہاتی کا تبصرہ شدت سے یاد آرہا ہے جس نے ریمنڈڈیوس کے فرار پر چوپال میں لوگوں سے کہا تھا کہ ٹی وی پر بیٹھے ہوئے نام نہاد دانش ور یوں ہی بے پر کی ہانک رہے ہیں۔ جامع اور دانش مندانہ تبصرہ تو یہ ہے کہ ان نامزد اور خصّی حکمرانوں سے اس کے سوا اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ دیکھنا ابھی مزید ریمنڈ ڈیوس یہاں آکر براجمان ہوں گے۔ اس دیہاتی کی بات میں قدرے وزن ہے۔ وقت نے بہت جلد اس کی تصدیق کردی ہے۔ دانش دولت کی چکاچوند سے نہیں دل ودماغ سے تعلق رکھتی ہے۔ اللہ کرے زرداری اور نوازشریف تک بھی اس کا کچھ حصہ پہنچ جائے۔
امت ِمسلمہ ہوشیار باش!!!
متفرق Mir Afsar Aman
دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) حمیدگل صاحب نے کیا صحیح کہا ہی: امریکا اور ہمارے دشمنوں کا پروگرام ہے "بہانہ طالبان، ٹھکانہ افغانستان اور نشانہ پاکستان"۔ یہی رائے تمام محب وطن پاکستانیوں کی ہے۔ ہم نے اس مضمون کو امت ِمسلمہ کا نام اس لیے دیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں میں پوری امت کا خون شامل ہے۔ نہ جانے کس کس نے کس کس طرح اس کو پایہ ¿ تکمیل تک پہنچانے میں مدد دی ہی، اس لیے اب اس کو سنبھالنا بھی امتِ مسلمہ کو ہے کیونکہ یہ اس کی امانت ہے۔ آپ کو معلوم ہے اگر پاکستان کے پاس ایٹمی قوت نہ ہوتی تو بھارت اب تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مزید ٹکڑے کرچکا ہوتا۔ اب بھی وہ پاکستان میں اور خصوصاً بلوچستان میں امریکا کے ساتھ مل کر یہ کام کررہا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ متعدد قونصل خانوں کے دفاتر کھولے ہوئے ہیں، ان کے ذریعے وہ ہمارے ملک کے خلاف جارحیت میں برابر کا شریک ہے۔ دنیا جانتی ہے بھارت، اسرائیل اور امریکا اس ملک اور اس کے ایٹمی اثاثوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ بھارت 1971ءمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرچکا ہی، اس میں ہمارے منافق دوست امریکا نے بھی اپنا حصہ ادا کیا اور اس کا ساتواں بحری بیڑہ ہماری مدد کو نہ پہنچ سکا جب کہ ہم اس کے سینٹو، سیٹو کے معاہدوں میں شامل تھے اور ہماری مدد کرنا اُس کا فرض تھا۔ امریکا مدد کیا کرتا وہ تو پاکستان توڑنے میں شریک تھا۔ اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے کہ پاکستان کو توڑنے میں ہمارا بھی ہاتھ تھا۔ روس نے تو کھلم کھلا اعلان کیا تھا اور پشاور کے علاقے بڈھ بیر کو اُس وقت نشان زد کردیا تھا جب ہم نے اپنے منافق دوست امریکا کو وہاں سے روس کے خلاف U2 جاسوس طیارہ اڑانے کی اجازت دی تھی جو روس نے اپنی سرزمین پر گرا لیا تھا۔ اس نے 1971ءمیں اپنی ایٹمی گن بوٹس کے ذریعے ہماری ناکہ بندی کرکے ہندوستان کی مدد کی تھی جس کی وجہ سے بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ خیر اس کا بدلہ امت ِمسلمہ نے افغان جہاد کے ذریعے روس کو توڑ کر اور دنیا کو آزاد کرواکے اور اپنی چھ اسلامی ریاستیں قازقستان، کرغیزستان، اُزبکستان، ترکمانستان، آذربائیجان، اور تاجکستان کوآزاد کرواکے روس سے لے لیا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہی: "ڈریے رب قادر کولوں، جیڑا چڑیاں تو باز مر وان دا ہے"۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت نہیں ہے کہ وہ امریکا کو گھیر کر فاقہ مست افغانیوں کے ملک میں لے آیا تاکہ اس کی سنت پوری ہو کہ کمزور لوگوں سے دنیا کی سپر طاقت کو شکست دے (فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی.... یا بندہ ¿ صحرائی یا مردِ کوہستانی)۔ پی این ایس مہران ایئربیس پر حملہ اور اس سے پہلے ہماری خودمختاری پر حملہ ایک ہی قسم کی کارروائیاں ہیں، کہ بالآخر ہمارے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کرواکر کہا جائے گا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہی، یہ اپنے ایٹمی اثاثے سنبھال نہیں سکتا۔ اور یہ موجودہ وار آن ٹیرر کا آخری ٹریلر ہوگا۔ اس طرح بھارت، اسرائیل، مغربی ممالک اور امریکا اسلامی ایٹمی بم سے نجات حاصل کریں گے۔ ہم بار بار اہلِ اقتدار پر واضح کرتے آرہے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ہی لوگوں سے لڑائی بند کردیں، ان سے مذاکرات کریں۔ مگر ہماری اور ہم جیسے لاتعداد پاکستانیوں کی بات پر دھیان نہیں دیا جارہا ہے۔ ہر حملے کے بعد مزید لڑائی کرنے کا عزم ظاہر کرکے اپنے بیرونی آقاوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ افغان طالبان کا ہی معاملہ لے لیں جن کے ملک کو تورا بورا بنانے کے لیے ہمارے ملک سے روزانہ ناٹو سپلائی جارہی ہی، کیا وہ افغانستان سے ہمیں پھولوں کے ہار بھیجیں گی؟ کیا ہم نے (نام نہاد) وار آن ٹیرر میں فرنٹ لائن اتحادی بن کر اپنے ملک کی بربادی کا سودا نہیں کیا؟ جنرل پرویزمشرف نے افغانیوں کے خلاف جو جرم کیا ہے اس کی باقاعدہ افغانیوں سے معافی مانگنا چاہیے اور ان کے خلاف لڑائی سے دست بردار ہونا چاہیے تاکہ ملک میں جاری گوریلا جنگ ختم ہو۔ امریکا کس طرح بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔21 مئی2011ءکے اخبارات میں خبر شائع ہوئی ہے کہ ناکام اسلامی ایٹمی ملک امریکا کے لیے خطرہ ہوگا۔ یہ امریکی ذہن کی عکاسی ہی، اور یہ بات کوئی عام آدمی نہیں کررہا ہے بلکہ یہ فرمان رمز فیلڈ سابق وزیر دفاع امریکا کا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوزکو دیے گئے انٹرویو سے مقامی اخبارات نے خبر شائع کی ہے کہ 26 مئی کو بھارت کے وزیر دفاع اے کے انتھونی نے فرمایا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ پر حملوں کے بعد پاکستانی جوہری اثاثوں کا تحفظ اب پوری عالمی برادری کے لیے تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ ناٹو کے سربراہ اینڈرس فاگ راسموسن نے فرمایا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کا معاملہ باعث ِتشویش ہے۔ یہ صرف 3 واقعات ہم نے لکھے ہیں ورنہ یہ بات دنیا میں بتدریج پھیلائی جارہی ہے تاکہ کام آسان ہوجائے۔ پہلے بھی ایسی خبریں شائع ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ایسی خبریں شائع ہوتی رہیں گی۔ امریکا اپنے پلان پر کام کررہا ہی، ہمیں اس پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کو اسلامی ایٹم بم ہضم نہیں ہورہا، وہ ہمارے ملک کو افراتفری میں مبتلا کرکے کہیں گی: "یہ ایک ناکام ریاست ہے"۔ وہ اس کے ایٹمی اثاثوں کو بین الاقوامی کنٹرول میں دے دینا چاہتے ہیں۔ اس منصوبے کے لیے کراچی کو جو پاکستان کو 70فیصد ریونیو دیتا ہے ایک عرصے سے ڈسٹرب کیا ہوا ہی، ذرا ذرا سی بات پر املاک کو نقصان پہنچانا اسی پلاننگ کا حصہ ہی، اور یہ کام امریکا کے مقامی ایجنٹ سرانجام دے رہے ہیں۔ کراچی میں دو قوم پرست جماعتیں نورا کشتی لڑرہی ہیں۔ اس کا ثبوت ریمنڈ ڈیوس سے تفتیش کے دوران اس کا اخباروں میں شائع شدہ بیان ہے کہ وہ کراچی میں دونوں قوم پرست جماعتوں کو فنڈ فراہم کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بے نظیر صاحبہ کی موت پر پاکستان کو چند دنوں میں اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا تھا اور اب پی این ایس پر حملہ کرکے اربوں کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ کون کررہا ہی، آج تک اتنے بڑے نقصان کی تحقیق کیوں نہیں کروائی گئی؟موجودہ حکومت کو ایک معاہدے کے تحت این آر او کے ذریعے اقتدار میں لانا اور اس کے ذریعے اربوں ڈالر کی کرپشن کو قانونی حثیت دلانا امریکا بہادر کا کام ہے۔ اب پھر پرویزمشرف کی باقیات کو اپنی موجودہ پٹھو حکومت سے ملانا اس گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ امریکا کی آشیرباد والی قوم پرست جماعتوں اور ڈکٹیٹر کی باقیات کو ملاکر پارلیمنٹ میں دو تہائی قوت حاصل کروانے کا پروگرام بنانا ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ حکومت امریکا کے کہنے پر عمل کرتی ہی، اس نے اپنی پارلیمنٹ کی پہلی منظور شدہ قرارداد ردی کی ٹوکری میں ڈالی ہوئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکا سے خارجہ تعلقات پر نظرثانی کی جائے۔ ایبٹ آباد حملے کے بعد ان کیمرہ اجلاس کی قرارداد پر اب تک عمل نہیں کیا گیا۔ اس لیے محب وطن عناصر کو سر جوڑ کر فوراً بیٹھنا چاہیے اور اس حکومت کو ختم کرنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ موجودہ صدر کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں سے میں پریشان نہیں ہوتا۔ اور وزیراعظم صاحب کا کہنا ہے کہ ہم پارلیمنٹ میں فرضی شور مچاتے رہیں گی، ہمیں حکومت کرنے دیں۔ جمہوری، آئینی پُرامن طریقے سے جدوجہد کرکے عوام کی طاقت سے اس حکومت کو تبدیل کرنے کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں، اس لیے اس بات پر تمام سیاسی و دینی جماعتوں کو کوئی نہ کوئی لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
حالات بدل سکتے ہیں
متفرق Farhan Shaukat
دنیا کے نقشے پر کلمہ ¿ طیبہ کی بنیاد پر واحد اسلامی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان جو قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت، علامہ محمداقبال کے تصور اور تحریکِ پاکستان کے کارکنان کی شب وروز محنت کا ثمر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام تھا، لیکن آج پاکستان جو اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی ریاست اور امت ِمسلمہ کی وحدت کا سرچشمہ ہی، بے شمار خطرات و مصائب میں گھرا ہوا ہے۔ پورا ملک امریکا کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا ہے۔ ہزاروں پاکستانی اس آگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ آج پاکستان دہشت گردی، غربت، افلاس، لاقانونیت، ناانصافی، قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ، شرح خواندگی میں کمی، عوامی حقوق کے غصب، کرپشن کی آماجگاہ، نام نہاد اقتدار کی رسیا سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اغیارکے ایجنٹ حکمرانوں کی بدولت بھیانک منظر پیش کررہا ہے۔ جنرل (ر) پرویزمشرف نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور قومی سلامتی کا سودا کیا تھا۔ موجودہ حکمران اس سے بھی بڑھ کر امریکی تابعداری کررہے ہیں۔ اس دہشت گردی کی جنگ سے پاکستان کو جہاں معاشی طور پر63 ارب ڈالرکا نقصان ہوا وہیں اس سے بڑھ کر پاکستان کے ہر کونے میں دہشت گردی کی آگ پھیلنے سے 30 ہزار سویلین اور 6 ہزار سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کا جانی نقصان ہوا ہے۔ امریکی ڈکٹیشن پر پہلے جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں فوجی آپریشن کرکے ہزاروں بے گناہ افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا، لاکھوں افراد اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئی، اور اب امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن اور امریکی فوجی سربراہ مائیک مولن کے حالیہ دورہ ¿ پاکستان میں نئی ڈکٹیشن پر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ بلوچستان میں بھی فوجی آپریشن جاری ہے۔ وہاں روزانہ مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں، ہزاروں افراد کو وہاں سے لاپتا کیا گیا ہے جن کاآج تک کوئی پتا نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مار دیئے گئے ہیں۔ امریکا، بھارت، اسرائیل بلوچستان میں اس شورش کا فائد اٹھاکر وہاں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے علیحدگی پسندی کی تحریک پروان چڑھانے میں مصروف ہیں کیونکہ ان کی نظریں بلوچستان کے وسائل پر لگی ہوئی ہیں۔ امریکا گوادر پورٹ کو ہر قیمت پر چین کے سپرد کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں روزانہ بے گناہ افراد لقمہ ¿ اجل بن رہے ہیں جس نے پاکستان کی آزادی و خودمختاری کو پامال کرکے اسے قبرستان بنادیا ہے۔ پورا ملک ریمنڈ ڈیوس جیسے ہزاروں بلیک واٹر اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کی چراگاہ بن گیا ہے۔ امریکا خود کہہ رہا ہے کہ اب ہمیں پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے اپنے سی آئی اے سینٹر پاکستان بھر میں قائم ہوگئے ہیں۔ ایبٹ آباد میں امریکا نے کھلی کارروائی کی، جبکہ نیوی کے مہران بیس پر حملہ امریکا و بھارت کے ایجنٹوں کی مشترکہ خفیہ کارروائی تھی۔ عالمی استعمار اور امریکا کے اتحادی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کا بے بنیاد پروپیگنڈہ کررہے ہیں، بلکہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہی، ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے پاکستان کے بارے میں امریکا کے عزائم کو واضح کردیا ہے۔ کیری لوگر بل کے نام پر ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ دی جانے والی امداد پاکستان کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ پاکستان کی تمام حکومتوں نے عوام کے معاشی مسائل کے خاتمی، تعلیم و صحت کی بہتری کے لیے جتنے بھی قرضے حاصل کیے وہ بے سود ثابت ہوئے۔ ان قرضوں کے حصول سے نہ تو پاکستان کی اپنی معاشی صورت حال بہتر ہوئی نہ عوام کی، اور نہ ہی تعلیم و صحت کے شعبے کی حالت بہتر ہوئی، بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، ہاں البتہ ان قرضوں کے حصول سے ارباب اقتداراور سول بیوروکریسی کی چاندی ہوگئی۔ قوم کے نام پر لیے گئے قرضے ان افراد کے اپنے ذاتی بیرون ملک اکاو ¿نٹس کی زینت بن گئے۔ ہر حکمران نے جی بھر کر قومی خزانے کو لوٹا ہے اور ملک و قوم کو مقروض کیا ہے۔ یہ حکمران غریب عوام کے مسائل حل کرنے کے نام پر اقتدار حاصل کرتے ہیں مگر اپنے اثاثے بیرون ملک منتقل کرتے ہیں۔ ان کے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں، حتیٰ کہ علاج معالجہ کے لیے بھی سرکاری خزانے سے بیرون ملک علاج کرواتے ہیں۔ غیر ملکی دوروں پر ذاتی عیش و عشرت ان کے مشاغل ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کے عوام جو ان کو اپنی امیدوں کا مرکز و محور سمجھتے ہیں وہ مہنگائی، بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں، خودسوزیاں کررہے ہیں۔ ملک میں بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، زرعی ادویات، زرعی کھاد، اشیاءخورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے اندھیروں کے باوجود عوام بجلی کے بھاری بل ادا کررہے ہیں۔ عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں جبکہ ان حکمرانوں کے بینک بیلنس، فیکٹریوں، کارخانوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ڈاکٹرعافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہی، ان حکمرانوں نے ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کرکے ڈالر کمائے ہیں۔ ہر روز انسانیت سوز واقعات سے زمین کانپ اٹھتی ہے اور اقتدار میں شریک تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں ان جرائم میں برابر کی شریک ہیں۔ ملک کے حالات اور تقدیر بدلنے کی کنجی عوام کے پاس ہے۔ قوم امریکی مداخلت اور اس کی پالیسیوں سے سخت نفرت کرتی ہے اور اسے پاکستان کا دشمن نمبر ایک قرار دے رہی ہے۔ اب چہروں کی نہیں نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔الحمدللہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے نوازا ہے۔ پاکستان بیرونی امداد کے بغیر اپنی معیشت بہتر کرسکتا ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل سے بھی آزادی حاصل کرسکتا ہے۔ یہاں کے لوگ بہادر، جفاکش اور ملک سے محبت کرنے والے ہیں۔ پاکستان اپنی خوراک کی تمام ضروریات اپنی سرزمین سے حاصل کرتا ہے اور اپنی اجناس اور دیگر اشیاءبیرون ملک بھجوا کر اربوں ڈالر بآسانی حاصل کرسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے عوام اب مصمم ارادہ کرلیں کہ وہ آئندہ ان کرپٹ حکمرانوں کو ووٹ کی پرچی کی طاقت سے شکست دیں گے۔ جماعت اسلامی نے ملک سے فوجی آمریت کے خاتمی، عدلیہ کی بحالی، تحریک ختم نبوت، تحریک ناموسِ رسالت جیسی تحریکوں میں لازوال کردار ادا کیا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد اور جہادِ کشمیر میں جماعت اسلامی کی قربانیاں سب سے بڑھ کر ہیں۔ بھارت کی عسکری و آبی جارحیت کے خلاف جماعت اسلامی سب سے آگے رہی ہے۔ 2005ءمیں بدترین زلزلہ اور حالیہ سیلاب میں جماعت اسلامی لوگوں کی امداد و ریلیف کے کاموں میں سب سے پہلے پہنچی۔ اس کی قیادت پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ جماعت اسلامی سے وابستہ افراد قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ممبر، ضلعی ناظم و دیگر عہدوں پر فائز رہے ہیں، پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ان افراد نے قومی سطح پر ایمانداری اور حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہے۔ اس کے کسی رکن اسمبلی پر کوئی پلاٹ لینی، قرضے حاصل کرنے یا معاف کرانی، ناجائز مراعات حاصل کرنے کا کوئی الزام تک نہیں ہے۔ اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے وگرنہ قوم تو روزانہ ان حکمرانوں، مراعات یافتہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، سول و ملٹری بیوروکریٹس کے کرپشن میں ملوث ہونے کی خبریں پڑھتی اور دیکھتی ہے۔ یہ سب اتحادی حکمران NRO کے حمام میں ننگے ہیں۔ ان کے کالے کرتوت عدالتوں و قوم کے سامنے ہیں۔ بلکہ اس حکومت نے تو اللہ کے مہمانوں یعنی حاجیوں کو بھی نہیں بخشا۔ اب وقت آگیا ہے کہ جیسے ترکی کے عوام نے وہاں سیکولرازم کے دلدادوں کو شکست دے کر دین اسلام کا پرچم سربلند کرکے ترکی کو اسلامی اقدار اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے پاکستان کے عوام آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کریں۔ ان شاءاللہ جماعت اسلامی کی قیادت پاکستان میں اسلامی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لاکر یہاں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرے گی، کرپشن کا خاتمہ کرے گی، ایمانداری کو اپنا شعار بنائے گی، قوم کی لوٹی ہوئی دولت ان لٹیروں سے واپس لے گی اورآئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے گی۔
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197
No comments:
Post a Comment