میڈیا خود بھی اپنی اداؤوں پر غور کرے
شمشیر حق۔۔محمد وجیہہ السماء
دنیا میں نت نئی ایجادات سا منے آ رہی ہیں ہر نئی چیز دنیا کو اپنے سحر میں گرفتار کیئے جا رہی ہے ۔ روز کو ئی نا کو ئی سا ئنسی چیز مارکیٹ میں آ کر ہمارے ذہن کے دریچوں کو ہلا رہی ہے۔ ہر ملک سے کو ئی نا کو ئی چیز اس دنیا کی ما رکیٹ کا حصہ بن ر ہی ہے چا ہے وہ الیکٹرونکس کی ہو یا جیو لری ، کپڑوں کے ڈیزائن ہو ں یا کھا نے کی چیز یں فر نیچر کے ڈیزئن ہوں یا بچوں کے کھلو نے۔ ہر ملک دوسرے کو''معا شی ''مات دینا چا ہتا ہے ان میں سے چند ایک ایجادات تو صرف امیر ممالک کے لئے بنا ئی جا تی ہیں اور باقی زیادہ ترغریب ممالک کے عوام کے دلوں پر ''راج'' کر نے کے لئے بنا ئی جا تی ہیں جن میں بچوں کے کھلونے آرٹیفیشل جیولری وغیرہ ہیں ۔ اور ہر انسان اپنی اولاد کے لئے ان کو خریدتا ہے تا کہ اس کی اولادان سے دل بہلا سکے۔اور اسی طرح الیکڑونکس کی بات کی جا ئے تو اس میں بھی اتنی جدت آ چکی ہے تو ایک چیز گھر بندہ لے کے نہیں پہنچتا اس سے بہتر دوکانوں پر پہنچ چکی ہو تی ہے ۔یہ چیزیں تو بھیجی ہی استعمال کے لئے جاتی ہیں مگر کہا جا تا ہے نہ کہ چیز خود بری نہیں ہو تی اس کا استعما ل اچھا یا برا ہو تا ہے۔ اور یہی ہوا ریڈیو ٹی کے آ نے کے بعد جدید''میڈیا''کے تصور نے جنم لیا اور جو جدت دنیا کو دکھا ئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ٹی وی چینلز نے لا ئسنس حا صل کر نے کے بعد جس حیا ئی کے سر ٹیفکیٹ حا صل کئے ہیں۔وہ بھی اپنی اہمیت خود بیان رہے ہیں اور اسی بے غیرتی کے سر ٹیفیکٹ کو بھرپور طریقے سے اسے استعمال کر رہے ہیں ۔ٹی وی چینلز تو اپناکام کر رہے ہیں یہ لو گ دین و دنیا سب کچھ بھول کر اپنی دھن میں مگن نظر آ تے ہیں انہیں اس بات سے کو ئی غر ض نہیں کہ ان کی پالیسیوں ان کے پروگراموں ، ڈراموں ،فلموں، سٹیج شوز ، اور میوزک سے کیا کیا مشکلات لوگوں کو درپیش آ رہی ہیں ان کو صرف اپنے کاموں اور پیسوں کے لالچ کی پٹی بندی ہو تی ہیمیڈیا کسی تہذیب کا علم بردار ہو تا ہے مگر یہاں تو کو ئی اور ہی قا نون نظر آ تا ہے ۔ ان کی وجہ سے آ ج دنیا اور خصوصاپاکستان میں بے حیا ئی کا نہ ختم ہو نے والاطوفان آ چکا ہے وہ شاید کبھی ختم ہو ۔ان کے کارموں کی وجہ سے عورت خود کو گھر میں قید سمجھنے لگی ہے وہ اپنے گھریلو کاموں سے بغاوت کر رہی ہے ٹی وی چینلز پر دکھا ئی دینے والی رنگ برنگی زندگی حاصل کر نا چا ہتی ہے انڈیا کو تو چھوڑیں اپنے ملک کے ڈراموں کو ہی لے لیں یہاں بھی بے حیا ئی پھیلا نے کی ڈور لگی ہو ئی ہے کو ئی بھی رائیٹر اپنے ڈراموں میں پیار و محبت کے سین اور جذبات بھڑکنے والے بول لکھنا اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے چاہے اس ڈرامے میں باقی کو ئی کام کی بات ہو نہ ہو عشق ضرورنظر آ جا تا ہے۔اور یہی حال ہماری فلموں کا ہے جس میں عورت بے ہودہ کپڑوں میں ملبوس ہو کر ذومعنی اور ولگر بولوں(منجی ایک جوانیاں دو۔ کٹھیاں سونا پیا، جپھی کوٹ کے پا گجرا،جدوں چلی ساواں دی نیری دو انار ہل گئے۔سوری قا رنئین بکواس بول نہیں لکھ سکتا اپنے کالم میں) پر اپنے جسم کی نما ئش کر تی نظر آ تی ہے بات یہیں ختم نہیں ہو تی یہ لوگ تو اپنی ثقافت اپنی روایات، تہذیب، مذہب کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں کو ئی یہ تو بتا دے کہ کیا پنجاب میں لڑکی کھیتوں میں جا کے ناچ ڈانس کر تی ہے؟سر عام بر ہنہ کپڑو ں میں ملبوس ہو کر غیروں کے بازوؤں میں جا تی ہے عشق لڑاتی نظر آ تی ہے یا کسی اور صو بے میں ایسا کچھ ہو تا ہے؟راقم کو کو ئی تو ایسا علاقہ بتا دیا جا ئے ہم بھی دیکھ آ ئیں کہ آیا وہاں جو ہو رہا ہے میڈیا آئینے کی طر ح ہمیں وہی دیکھا رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت سے ان باتوں کا تعلق بہت کم ہے ۔کوئی کسی جگہ ڈھکے چھپے کو ئی پیار کی بات کر لیتا ہوگا مگر جس طرح سے میڈیا میں دکھا یا جا تاہے وہ نا ممکن ہے میڈیا اپنی عوام کو گمراہ کر رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات بھڑکنے والے بولوں سے ہزاروں گھر تباہ بر باد ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے لڑ کے لڑکیو ں کے نو عمری میں ہی جذبات ایک دوسرے کی طر ح متوجہ ہو نے لگے ہیں گھروں سے بھا گنے، قتل ہو نے، قتل کر نے، بچے بیچنے،جا ئز تعلقات کے واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہی اور یہ میڈیا اپنا قصور سمجھے بغیر بھا گنے اور گھریلو حا لات سے تنگ لوگوں کی خبریں مر چ مسالحہ سے لگا کر ان کی بچی ہو ئی عزت بھی مٹی میں ملا دتیا ہے ۔ جب کہ حقیقت میں یہی میڈیا ان سا ری برائیوں کا ذمہ دار ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ رائیٹر ز ذمہ دار ہیں جو بکواس لکھ کر لوگوں کے جذبات بھڑکا کر اپنے لئے فائدے حا صل کر نا چا ہتے ہیں ان کو روزآخر ت کا کو ئی خیال نہیں بس راتوں رات ارب پتی بنے میں لگے ہو ئے ہیں۔فن کار بھی اس کام میں اپنا جسم دیکھا کر پتہ نہیں کیا حا صل کر نا چا ہتے ہیں ان کا موقف یہ ہو تاہے کہ یہ ڈریس جو ہم زیب تن کر تے ہیں معا شرے میں پہنے جا تے ہیں حقیقت میں ایسا کچھ نہیں میڈیا جو ڈریس دیکھتا ہے اس کو دیکھ کے لوگ ان کی طرف متوجہ ہو تے ہیں ۔ اب بھی ملک میں سے بے حیائی کا کچھ حصہ ختم کیا جا سکتا ہے اگر یہی میڈیا اپنا کردار ادا کرے اور اپنے پروگراموں میں اپنے ڈراموں میں اسلامی تہذیب کو اجا گر کر ے ۔ ہم اس میڈیا کو ختم کرنے کا نہیں کہہ رہے کیو نکہ اسکی وجہ سے لاکھوں لوگوں کا گھر بار چل رہا ہے اور لوگ محنت سے کمار رہے ہیں بس اس بے حیا ئی کو ختم کر کے مساوات، بھا ئی چا رے، اسلامی تشخص، تہذیب، مذہب ، اور شہیدوں کے بارے میں ڈرامے پیش کیئے جا ئیں اور حکومتی سطح میں یہ کام پہلے ہو نا چا ہیئے کیو نکہ حکومتی سر پرستی کے بغیر ہمارے لوگ تواپنے گھر کے سامنے ایک اینٹ تک نہیں لگتے ۔ حکومت کو چا ہیئے کہ کیبل اور ٹی وی چینل کے کنڑولر ادارے کو احکامات جاری کر ے کہ وہ ان کاموں کی طر ف توجہ دے اور ٹی وی چینلز کو اس بات کا پابند کر ے ۔اور ٹی وی چینلز بھی اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری جانتے ہو ئے اس پر عمل کریں۔میڈیا آ ئے روز مغربی یلغار اور حکمرانوں پرکیچڑ نہ اچھا لے ۔ بلکہ اسلامی تہذیب اور پنجاب کا حقیقی عکس بیان کرے۔
BEST REGARDS Muhammad Wajih Us Sama,Columnist
(+92-334-5877586).
http://wajisama.wordpress.com/
--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197
No comments:
Post a Comment