اژدھا کے منہ میں چار سال
ملاعبدالسلام ضعیف سابق سفیر افغانستان برائے پاکستان
قسط پنجم:-وحشی بھیڑیوں کا حملہ
حوالگی کا یہ لمحہ بڑا دردناک اور انتہائی کربناک تھا۔ کئی افراد نے مجھ پر یک بارگی حملہ کردیاجیسے کوئی میمنہ بھیڑیوں کے نرغے میں آگیا ہو اور ہر بھیڑیا زیادہ شدت کے ساتھ اس چیر پھاڑ میں حصہ لے رہا ہو۔ لاتوں،گھونسوں، تھپڑوں اور مکوں کی بارش ہورہی تھی۔ مجھے زمین پر پٹخ دیا گیاتھا۔ چاقووں سے میرا لباس پھاڑا جا رہا تھا۔ فحش گالیاں دی جارہی تھیں۔ میں انگ انگ میں شدید درد محسوس کررہا تھالیکن تشدد تھمنے میں نہیں آرہا تھا۔ حتی کہ میرا پورا لباس چیتھڑے بن کر میرے جسم سے الگ ہو گیا اور میں بالکل برہنہ ہو کر ان کے درمیان بے سدھ پڑا تھا۔اس ذلت اور بے بسی میں میری آنکھوں سے وہ پٹی سرک گئی جو میری آنکھ اور میرے برہنہ جسم کے درمیان حائل تھی۔ چاروں طرف دیکھا تو پاکستانی فوجی اہل کار فوجی انداز میں صف بستہ کھڑے تھے۔ ان میں غالباً کوئی جرنیل بھی تھا کیونکہ فوجی گاڑی پر جنرل کا نشان لگا ہوا تھا۔یہ لوگ امریکیوں سے اتنا بھی نہ کہ سکے کہ کم از کم ہمارے سامنے اس مسلمان قیدی کے ساتھ یہ انسانیت سوز سلوک تو نہ کیا جائے۔وہ خاموشی سے حوالگی کے رسمی تقاضے پورے کرنے میں مگن تھے۔چند امریکی فوجی بھی منظم انداز میں کھڑے تھے اور کچھ میرے ساتھ یہ وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک کررہے تھے۔
یہ اتنا وحشت ناک اور توہین آمیز منظر تھا کہ مر کر بھی نہیں بھول سکوں گا۔ میں کوئی مجرم نہیں تھا۔اس شرمناک سلوک کو کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔امریکی وحشی جانوروں نے ٹھڈے اور مکے مار مار کر اس حالت میں اٹھا کر ہیلی کوپٹر میں پٹخ دیا کہ تن پر ستر ڈھانپنے کے لیے اب ایک چیتھڑا بھی نہیں بچا تھا۔ ہاتھ پاوں زنجیروں سے باندھ دیے گئے۔ آنکھیں ایک پٹی سے بند کردی گئیں۔ اور سیاہ کپڑے کا ایک تھیلا سر پر چڑھا دیا گیا۔ اس کے سروں کو ایک ٹیپ کے ذریعے میرے گلے کے ارد گرد مضبوطی سے باندھ دیا گیا جس سے دم گھٹا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ پھر ہیلی کوپٹر کےدرمیان میں ایک تختے کے ساتھ باندھ کر لٹا دیا گیا۔ شدید تکلیف ہورہی تھی۔اگر کوئی ہلکی سی حرکت بھی کرتا تو فوجی بے رحمی سے لات پسلیوں میں رسید کرتے۔
بدن مار کھاتے کھاتے اس حد تک سُن ہوچکا تھا کہ لا ت یا مکے پڑنے کا زیادہ احساس نہیں ہوتا تھا اور میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حالتِ نزع شروع ہوگئی ہے۔ دل ہی دل میں رب کریم سے دعا مانگ رہا تھا کہ اس لمحے روح بدن کا ساتھ چھوڑ جائے تا کہ مزیدتشدد اور ذلت سےبچ جاوں لیکن شاید رب کو میرا مزید امتحان لینا مقصود تھا۔
اسی کشمکش ،تشدد، فحش گالیوں کی حالت میں نہ جانے کتنا وقت گزر چکا تھا کہ ایک مقام پر ہیلی کاپٹر نیچے آیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید اب کچھ آرام ملے لیکن وحشی جانوروں نے اُسی بے رحمی کے ساتھ مجھے ہیلی کاپٹر سے نیچے پھینک دیا۔ وہاں کچھ اور فوجی بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے اور تقریباً ایک گھنٹے تک مجھ پر بے پناہ تشدد کرتے رہے۔چار پانچ فوجی میرے اوپر ایسے بیٹھے تھے جیسے وہ کسی انسان پر نہیں بلکہ کسی شہتیر یا چٹان پر بیٹھ کر گپیں ہانک رہے ہیں۔ جب میں کوئی حرکت یا فریاد کرتا تو بڑی بے رحمی کے ساتھ مارتے تھے۔ ان کے نیچے دبا ہوا میں بس ایک ہی دعا کیا کرتا تھا کہ موت آجائے اور میں اس عذاب سے نجات پاجاوں۔
تقریباً دو گھنٹے بعد مجھے اُسی بے رحمی کے ساتھ کھینچتے ہوئے ایک اور ہیلی کاپٹر میں سوار کرایا گیا۔ اس جہاز کی حالت پہلے ہیلی کاپٹر سے ذرا بہتر تھی۔ یہاں مجھے ایک آہنی کرسی پر بٹھایاگیا۔ بہت سخت طریقے سے باندھا گیا لیکن دیگر جسمانی تشدد نہیں کیا گیا۔ بیس پچیس منٹ بعد ہیلی کاپٹر زمین پر آیا اور مجھے کھینچتے ہوئے باہر لائے ۔ پھر مجھے کھڑا ہونے کے لیے کہا۔
بے شمار جہازوں کی مخصوص آوازیں اور کئی افراد کا شور سن رہا تھا۔ اسی دوران ایک ترجمان کی وساطت سے مجھے کہا گیا کہ پاوں نیچے کرلو، نیچے سیڑھیاں ہیں۔ چھ سیڑھیاں گن کر میں نیچے اترا۔ وہاں میرے سر سے سیاہ تھیلا ہٹا دیا گیا۔ آنکھیں کھل گئیں تو میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ کئی امریکی فوجی میرے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کھڑے تھے۔ میں ان کے مکمل حصار میں تھا۔ بائیں طرف نظر دوڑائی تو ایک پنجرہ نما کمرہ نظر آیا۔ جس میں کچھ قیدی بے سدھ پڑے تھے۔ انھوں نے میرے ہاتھ پاوں کھول دیے اور ایک چھوٹے سے حمام کی طرف لے جایا گیا۔ ہاتھ منہ دھونے کا کہا گیا۔ لیکن تشدد اور مسلسل بندھے رہنے سے میرے ہاتھ پاوں شل ہوچکے تھے۔ اس لیے اس پانی سے کوئی استفادہ نہ کرسکا۔ بس صرف اپنے بدن کو شاور کے نیچے کھڑا ہو کر گیلا کرسکا۔ایک خاص وردی پہننے کے لیے دی گئی۔ایک میٹر چوڑائی اور دومیٹر طوالت والے دڑبے میں ڈال دیا گیا۔ کموڈ اور ہاتھ منہ دھونے کی جگہ بھی یہی تھی۔ اس کےعلاوہ کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔ یہ در حقیقت ایک پنجرہ تھا جو آزاد پنچھیوں کو قید کرنے اور اُن سے آزاد پرواز کرنے کے اختیار و احساس کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
چاروں طرف آہنی جال اور دیواریں تھیں۔ تنہائی اور بے بسی کا کرب ناک احساس تھا جس نے مجھے گھیر لیا تھا۔ کہا گیا کہ آپ آرام کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔لیکن آرام کرنے کے لیے کوئی سامان نہ تھا۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور یہ سوچ رہا تھا کہ کہاں ہوں اور کیا ہوگا؟
باقی آئندہ
No comments:
Post a Comment