عدلیہ سے تصادم کی ''حکمت عملی''
- سلمان عابد پاکستان کی سیاست کے مجموعی تناظر کو دیکھیں تو اس میں جہاں اور بہت سے مسائل سرفہرست ہیں وہیں اس وقت حکومت اور عدلیہ سمیت دیگر سیاسی قوتیں اور اشرافیہ کا طبقہ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ اداروں کے درمیان تصادم کی یہ فضا ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب لوگوں کا خیال ہے کہ ملک عملی طور پر نئے انتخابات کی جانب گامزن ہے اور اس وقت بڑے سیاسی فریقوں کے درمیان اصل اتفاق رائے '' پرامن اقتدارکی منتقلی'' پر ہونا چاہیے۔ لیکن حالات بتارہے ہیں کہ ہماری سیاسی قوتیں سمیت دیگر فریقین کسی بڑے اتفاق رائے کو پیدا کرنے کے بجائے نئے مسائل کو جنم دے کر صورت حال کو ایک بند گلی میں لے کر جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ معلوم نہیں اداروں کے درمیان اس تصادم کا عملی نتیجہ کیا برآمد ہوگا، لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر سیاسی قوتوں نے فہم وفراست کا مظاہر ہ نہ کیا تو جو بھی ڈرامائی صورت حال پیدا ہوگی وہ سیاسی قوتوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتوں کے لیے اہم ہوگی۔سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اس وقت اداروں کے درمیان باہمی تصادم میں الجھ کر رہ گئے ہیں اورکیا اس میں حکومت سمیت ادارے بھی برابر کے شریک ہیں یا اداروں کو جان بوجھ کر اس تصادم میں دھکیلا جارہا ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہماری اقتدار پرست سیاسی قوتیں فہم و فراست کے مقابلے میں جذباتی طریقہ سے معاملات کو ڈیل کرکے خراب کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔مثال کے طور پر اگر ہم پیپلز پارٹی اور اس کی بعض اتحادی جماعتوں کی سیاست پر نظر ڈالیں تووہ اس وقت اداروں کے ساتھ تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔سیاسی پنڈتوں اور قانونی ماہرین سمیت سیاسی اشرافیہ کے دیگر طبقات میں یہ بات پہلے سے طے شدہ تھی کہ پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت عدلیہ اور بالخصوص چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اپنے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ سمجھتی ہے۔ اس کا اظہار پیپلز پارٹی سمیت حکومت کے اہم عہدے داروں نے ایک سے زیادہ مرتبہ کیا اور کہا کہ عدلیہ ہمارے خلاف سیاسی تعصب کا رویہ رکھتی ہے۔ اس تناظر میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد سے حکومت نے عدلیہ کے ساتھ سیاسی مزاحمت کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔اس سوچ کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے قومی اسمبلی سے بڑی سیاسی عجلت میں '' توہین عدالت بل2012ء'' منظور کیا ہے۔اسی طرح دوہری شہریت کا قانون کو منظور کروانے کے لیے بھی قومی اسمبلی سے قبل سینیٹ کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس سیاسی حکمت علی پر بہت سے لوگ حیران ہیں اوران کا خیال ہے کہ اس اہم موڑ پر جہاں پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں میں بھی ان دونوں قانون پر مکمل اتفاق رائے نہیں ہے حکومت کو اس عمل سے گریز کرنا چاہیے تھا۔لیکن میرے نزدیک حکومت کی یہ حکمت عملی حیران کن نہیں ، بلکہ اس حکمت عملی کے بعد اس کا امکان غالب ہوگیا تھا کہ حکومت پوری کوشش کرے گی کہ نئے سیاسی وار سے عدلیہ اور چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرکے اپنی سیاسی طاقت کو بحال کرسکے۔ پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت کا مقصد محض نئی قانون سازی کرنا نہیں بلکہ عدلیہ کے مقابلے میں قانون کا سہارا لے کر سیاسی برتری حاصل کرنا ہے۔اہم بات اس بل یعنی '' توہین عدالت کا بل 2012ئ'' اور ''دوہری شہریت کے پارلیمان ''کی ٹائمنگ کا ہے اور حکومت نے ان دونوں بلوںکو ایک ایسے موقع پر منظور کیا جب حکومت اور عدلیہ کے درمیان کئی حوالوں سے محاذ آرائی کا عمل جاری ہے۔ بالخصوص توہین عدالت کے حوالے سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نااہل ہوئے اور دوسرے وزیر اعظم پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے اور دوسری جانب ملک ریاض کے حوالے سے بھی ایک اہم مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اس بل میں جن اہم نکات کی منظوری دی گئی ہے ان میں ''جج کے خلاف کوئی بھی سچا بیان توہین عدالت تصور نہیں ہوگا، اعلی عدلیہ پر تنقید ہوسکے گی، چیف جسٹس سمیت کوئی بھی جج اسیکنڈلز ہوگا وہ توہین عدالت کا کیس نہیں سن سکے گا، بل کے تحت عوامی عہدہ رکھنے والے کسی بھی شخص کے خلاف توہین عدالت تصور نہیں ہوگی، آرٹیکل 10-Aکے تحت ہر ملزم کا شفاف ٹرائل ہوگا،توہین عدالت کا ملزم کسی وقت معافی کی درخواست دے کر معافی طلب کرسکتا ہے اور عدالت اس کی معافی کو قبول کرنے مجاز ہوگی، اگر ججوں یا عدلیہ پر قومی اسمبلی یا سینٹ میں سخت زبان پر تنقید ہوگی اوراگر اسپیکر یا چیرمین سینٹ ان الفاظ کو کاروائی سے حذف کردے تو توہین عدالت تصور نہیں ہوگی،توہین عدالت پر سزاپر اس وقت تک عملدرامد نہیں ہوسکے گا جب تک اس فیصلے کے خلاف اپیل یا نظرثانی کے فیصلہ سامنے نہیں آجاتا اوراسی طرح اگر چیف جسٹس پر کوئی سیکنڈلز ہوگا تو ان کی جگہ دو سینئر ججز ذمہ داری ادا کریں گے شامل ہے۔ ان تمام شقوں کو دیکھیں تو یہ حکومت کی جانب سے عدلیہ کو یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اب حکومت عدلیہ کے حد سے بڑھتے ہوئے اختیارات کو محدود کرکے آگے بڑھنا چاہتی ہے اوراس معاملے میں اب کسی سیاسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگر آپ اس منظور شدہ بل کے نکات کو دیکھیں تو یہ مجموعی طور پر ہمارے آئین کی واضح خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ مثال کے طو رپر آرٹیکل 25-Aکے تحت پاکستان میں ہر شہری برابر ہے اورانھیں قانون میں مساوی تحفظ حاصل ہے، جبکہ یہ مجوزہ بل اس قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے جہاں حکومت نے وزیر اعظم، وفاقی وزرا اور ارکان اسمبلی سمیت وزیر اعلی،گورنرکو قانونی تحفظ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ تمام شہری برابر نہیں بلکہ اہم عہدے دار اس قانون سے استثنی رکھتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی ابہام نہیں کہ بل کئی حوالوں سے قانونی سقم رکھتا ہے اوراس کو ہر سطح پر چیلنج کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ مذکورہ بل صرف آئین کے آرٹیکل25-Aہی کے خلاف نہیں بلکہ آرٹیکل 2, 4, 5, 175, 203, 204,اور248-Aکے بھی منافی ہے اور نئے قانون سے آئین عملی طورپر مذاق بن کر رہ جائے گا۔ حکومت نے اس بل کی منظوری کوجس عجلت میں منظور کیا ہے اور پارلیمانی رولز کو بائی پاس کرکے منظور کیا وہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس بل کی منظوری میں اپنے سیاسی عزائم رکھتی ہے۔ حالانکہ ضرورت اس امرکی تھی کہ اس بل پر اسمبلی میں بحث و مباحثہ ہوتا اور ارکان کی منظوری کے ساتھ اگریہ معاملات سامنے آتے تو بہتر صورت حال سامنے آسکتی تھی۔کیونکہ اب یہ بل عدالت میں چیلنج ہوچکا ہے تواس بات کا قوی امکان ہے کہ آنے والے چند دنوں عدالت اس اہم معاملے پر کاروائی کرکے اس قانون کی تشریح کرسکتی ہے۔امکان یہی ہے کہ یا تو اس قانون کو مکمل طو رپر مستر د کردیا جائے گا یا اس کی بعض شقوں کواعتراض کے ساتھ مسترد کردیا جائے گا۔ چند دن قبل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کراچی میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے واضح پیغام دیا تھا کہ اگر کسی نے عدالت کے اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش کی تو ہم اپنا قانونی راستہ اختیا رکرسکتے ہیں اور ان کے بقول پارلیمنٹ نہیں بلکہ آئین سپریم ہے۔ویسے بھی کیونکہ اس وقت پاکستان میں بھی بھارت کی طرح عدلیہ کافی متحرک اور فعال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود عدلیہ اور بار میں یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے حکومت عدلیہ کے معاملات کو کنٹرو ل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف جماعت اسلامی جیسی سیاسی قوتیں اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت ہائی کورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن پہلے ہی اس بل کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ اس کا پس پردہ مقصد عدلیہ کی آٖزادی پر ضرب کاری لگانا مقصود ہے اوراسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔یہ تما م سیاسی اور قانونی قوتیں حکومت کی جانب سے اس بل کی منظوری پر سراپا احتجاج ہیں اور وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ سمیت یوم سیاہ بھی منایا ہے۔پیپلز پارٹی کے بہت سے لوگ جن میں اعتزاز احسن بھی شامل ہیں اعتراف کرتے ہیں کہ یہ منظور شدہ بل بہت سی کمزوریوں کی وجہ سے فوری طور پر عدالت کے فیصلے کا شکار ہوجائے گا اور ان کے بقول اس اہم معاملے میں پارٹی نے انھیں اعتماد میں نہیں لیا۔فخرالدین جی ابراہیم جنھیں حکومت اورحزب اختلاف دونوں نے نئے چیف الیکشن کمشنر کے طو رپر نامزد کیا ہے ان کا کہنا بھی یہی ہے اس بل کو سمجھنے کے لیے کم ازکم چار فخرالدین جی ابراہیم کی ضرورت ہوگی۔ ڈاکٹر عبدالباسط، سلمان اکرم راجہ، بابر ستار، جسٹس طارق محمود، جسٹس وجیہ الدین، حامد خان، یاسین آزاد سمیت کئی قانونی ماہرین نے اس بل کی صحت اور حکومتی نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی وقانونی ماہرین کی اکثریت اس نئے مجوزہ توہین عدالت کے قانون پر اپنے تحفظات رکھتی ہے تو پھر حکومت کو اس بل کی منظوری سے کیا حاصل ہوگا یا کیا حاصل ہوا ہے۔ ایک عمومی تاثر یہی ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ عدلیہ اس بل کے خلاف فیصلہ دے اور ہم ملکی یا بین الاقوامی طور پر اس تاثر کومزید مضبوط بنائیں کے عدلیہ پارلیمنٹ اور حکومت کے کاموں میں رکاوٹ پیدا کرکے عوام کے منتخب نمائندوں کے خلاف کام کررہی ہے۔ حکومت نے جان بوجھ کر اس بحث کو آگے بڑھایا ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں سے کون سپریم ہے اور رویہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ معا ملہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان آسانی سے حل نہیں ہوگا۔ پیپلز پارٹی اس قانونی معاملہ کو سیاسی رنگ میں بھی ڈھالنا چاہتی ہے تاکہ اپنے ووٹروں کو بھی وہ مطمئن کرسکے کے اعلی عدالتیں ان کے خلاف ہیں اورووٹروں اور پارٹی کے کارکنوں کو پارٹی قیادت کا ساتھ دینا چاہیے۔اسی طرح یہ باتیں بھی عام ہیں کہ ملک ریاض سمیت پیپلز پارٹی میں سے کچھ طبقات چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف مزید اسیکنڈلز لانا چاہتے ہیں۔ اس کا اقرار ایک انٹرویو میں ملک ریاض پہلے ہی کرچکے ہیں کہ وہ بہت جلد چیف جسٹس اوران کے خاندان کے خلاف الزامات کا دوسرا حصہ بھی سامنے َلائیں گے۔ اس کا اشارہ ملک کے معروف سیاسی تجزیہ نگار، پبلشراور ٹی وی اینکر جن کا ملک ریاض سے قریبی تعلق ہے، پہلے ہی دے چکے ہیں کہ ملک ریاض کا پارٹ ٹو جب آئے گا تو چیف جسٹس کو اور زیادہ متنازع بنادیا جائے گا۔اسی طرح پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سمیت پارلیمانی پارٹی میں بہت سے ارکان نے چیف جسٹس اور بعض ججوں کے خلاف بہت سخت باتیں کی ہیں اوران کے بقول اس معاملے پر پارٹی کو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے بھر پور مزاحمت کرنی چاہیے۔ اس بل کی منظوری کے بعد عدلیہ اور حکومت ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں اور اگر عدالت اس بل کو کالعدم قرار دیتی ہے تو نیا تصادم جنم لے گا۔اسی طرح دوہری شہریت کے قانون میں بھی حکومت کے سامنے ایک طرف حزب اختلاف ہے تو دوسری طرف اس کی اتحادی جماعتیں ہیں جن میں اے این پی نمایاں ہے جو ا س بل کی مخالفت کررہی ہے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ )ق(کے بھی بعض ارکان نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔اس لیے اس بل کی منظوری بھی حکومت کے لیے کڑوی گولی ثابت ہوسکتی ہے۔چوہدری شجاعت نے دوہری شہریت کے قانون کی حمایت میں یہ دلیل دی ہے کہ دوہری شہریت کے حامل لوگوں کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے البتہ ان کو کوئی حکومتی عہدہ نہیں ملنا چاہیے۔یہ دلیل بھی بے وزن ہے اور اس کی حمایت بھی مشکل نظر آتی ہے۔ دراصل پیپلز پارٹی سمیت بہت سی سیاسی جماعتوں اور بڑے طاقت ور گروہ کو جو آزاد عدلیہ کو اپنے راستے میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں کی جانب سے جو کچھ موجودہ عدلیہ یا ان میں چیف جسٹس کو خصوصی ٹارگٹ بنانے کی جو کوشش کی جارہی ہے وہ عملی طور پر طاقت ور گروپوں، سیاسی قوتوں اور آزاد عدلیہ کے حامیوں کے درمیا ن ایک بڑی لڑائی کے پہلو سامنے لاتی ہے۔ اس موقع پر ہمیں آزاد عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر عدالتیں آزاد نہیں ہوں گی اور ماضی کی طرح نظریہ ضرورت کے تحت کام کریں گی تو اس ملک سے انصاف سمیت عدلیہ کی آزادی کا سوال بہت پیچھے رہ جائے گا اور ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم بالادست سیاسی قوتوں اور مافیا کے بڑے عناصر کے مقابلے میں کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔کیونکہ حکومتی سطح پر مجموعی رویہ یہی نظر آتا ہے کہ وہ عدالت کی رٹ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور وہ سمجھتی ہے کہ ہمیں کیونکہ پانچ برس کا مینڈیٹ ملا ہے تو عدالت اس میں قانون کو بنیاد بناکر ختم کرنے یا اسے محدود کرنے کی کوشش نہ کرے۔ حالانکہ حکومت اور عدلیہ یا قانون کی بالادستی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر جمہوریت اور قانون کی بالادستی کا سوال پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے کہ اگر عدلیہ اس نئے توہین عدالت کے قانون کو مسترد کردیتی ہے تو اس پر حکومت کا ردعمل کیا ہوگا۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کے حلقوں کا تعلق ہے تو ان میں سے بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ اس بار ہم عدلیہ کے مقابلے بھرپور مزاحمت کریں گے۔ اس کا اظہار ہمیں روزانہ کے ٹی وی ٹاک شوز میں پیپلز پارٹی کے بعض جیالوں کی جانب سے سامنے آیا ہے جہاں عدلیہ اور بالخصوص چیف جسٹس پر خوب لعن طعن کی جارہی ہے، یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس بار عدلیہ کے فیصلہ پر یوسف رضا گیلانی کی طرح خاموش نہیں رہے گی اور اس کاردعمل سخت ہوگا۔دراصل حکومت کی کوشش یہ ہے کہ وہ ان بلوں کی سیاست کے کھیل سے عدلیہ کو ان معالات میں الجھائے رکھے اور اس کو سیاسی ریلیف ملے۔ حکومت پر اس وقت ایک دبائویہ ضرور ہے کہ وہ فوری طور پر انتخابات کا اعلان کرکے اس بحران کو ختم کریں۔ لیکن حکومت اوراس کی اتحادی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ہمیں انتخابات کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔ لیکن جس طرح حکومت انتخابات میں تاخیر کرے گی اس کے لیے مشکلات کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھ جائیں گی۔حکومت کو بعض لوگ یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ وہ انتخابات کو کچھ وقت کے لیے ملتوی کردے اور ایک برس کے بعد جب انتخابات منعقد ہونگے تو اس کا فائدہ پیپلز پارٹی اوراس کی اتحادی جماعتوں کو ہوگا۔ اس دلیل کی منطق یہ بھی دی جارہی ہے کہ اگلے برس چیف جسٹس کی مدت ملازمت پوری ہوجائے گی تو حکومت کے لیے زیادہ آسانی پیدا ہوگی اوراس تناظر میں انھیں مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ عام انتخابات سے قبل مقامی حکومتوں کے انتخابات کا اعلان کردے۔ لیکن یہ کام پیپلز پارٹی کے لیے آسان نہیں ہوگا اور انھیں اس محاذ پر سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔مجوزہ توہین عدالت کا قانون اور دوہری شہریت کے معاملے میں حکومت کو عدلیہ اور وکلا سمیت میڈیا میں کافی بڑی محاذ آرائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے پیپلز پارٹی جو کھیل اپنے ذہن میں بنائے ہوئے ہے اس پراسی طرح عملدرامد ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان میں سیاسی اشرافیہ کے بعض طبقات کررہے ہیں کہ اب فوری طو رپر نئے انتخابات کا امکان نہیں ہے اوراس کی جگہ کوئی متبادل عبوری سیاسی بندوبست سامنے لایا جارہا ہے۔اگرچہ نئے چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق ہوگیا ہے، لیکن سیاسی پنڈتوں کے بقول یہ بہت تاخیر ہوگئی ہے۔ ایک نظریے یہ بھی ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے تناظر میں امریکہ اورپاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ میں مستقبل کے سیاسی منظرنامہ پر مفاہمت ہوئی ہے اور اس کا نتیجہ کسی بڑی تبدیلی کے ساتھ نکلے گا۔نئے عبوری سیٹ اپ میں وزیر اعظم کے لیے کئی نام بھی سامنے آئے ہیں جن میں ڈاکٹر حفیظ شیخ، اسد عمر، محمد میاں سومرو، شوکت ترین شامل ہیں اور اس عبوری سیٹ اَپ کی اوّلین ترجیح معاشی صورت حال اور توانائی کا بحران ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ نگران یا عبوری سیٹ آپ کو لانے میں حکومت اور حزب اختلاف کا کتنا کردار ہوگا، کیونکہ بعض چیزیں تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں۔ اس لیے ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کا سیاسی بحران عروج پر ہے ایسے موقع پر حکومت اور عدلیہ کہ درمیان جاری تصادم کوئی اچھا پہلو نہیں ہے۔ لیکن کیا ہماری سیاسی قوتیں اس تدبر اور قومی مسائل پر اپنے ذاتی معاملات اور مفادات کو ترجیح دینے کے لیے تیا رہیں۔ وگرنہ جو کچھ ہوگا اس میں دیگر قوتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی قوتیں بھی برابرکی ذمہ دار ہوں گی۔ |
No comments:
Post a Comment