السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کی تراویح
آج کی تراویح چودھویں پارے کے ربع آخر سے پندرہویں پارے کے آخر تک کی تلاوت پر مبنی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ''اے مسلمانو! جب تم قرآن مجید کی تلاوت شروع کیا کرو تو شیطان سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ اے نبیؐ آپ لوگوں کو دعوت ِ دین ِ مبین نہایت حکمت اور بہترین طریقے پر دیا کریں اور مخالفین کی حرکات پر رنج نہ کیا کریں۔ اللہ آپ کا حامی و مددگارہے۔'' اس کے بعد سورۂ بنی اسرائیل شروع ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کو معراج شریف کا شرف بخشا اور وہاں ان کو اپنی قدرت کے بڑے بڑے مشاہدات کرائے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ پانچ وقت کی نماز اوقات کی پابندی کے ساتھ فرض ہوئی۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے وہ چودہ نکات بھی عطا فرمائے' جن سے مستقبل کے مسلم معاشرے کی مہذب ترین تشکیل عمل میں آئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ: (1 ''عبادت صرف اللہ کی کرو۔''(2 ''والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔''(3 ''رشتہ داروں' مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دو۔''(4 ''فضول خرچی نہ کرو۔''(5 ''اگر کسی کی حاجت پوری نہ کرسکو تو نرمی سے جواب دے دو۔''(6 ''نہ کنجوسی کرو نہ فضول خرچی' اعتدال کی راہ اختیار کرو۔''(7 ''اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو۔''(8 ''زنا کے قریب تک نہ جائو۔''(9 ''بغیر قانونی جواز کے کسی کو قتل نہ کرو۔''(10 ''حدود ِقانونی سے باہر یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو۔''(11 ''قول و قرار کی پابندی کرو۔''(12 ''ناپ اور تول میں کمی بیشی ہرگز نہ کرو۔''(13 ''جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو۔''(14 ''غرور اور تکبر کی چال نہ چلو۔''یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نبیؐ پر وحی فرمائیں۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے کہ ''حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو دراصل مٹنے والا ہی ہے ۔ اے نبیؐ ! میرے بندوں سے کہہ دو کہ بات وہ کیا کریں جو بہتر اور پسندیدہ ہو۔ '' اس کے بعد سورۂ کہف شروع ہوتی ہے۔ اس سورۃ میں اصحابِ کہف اور ملاقاتِ خضر و موسیٰ ؑکاذکر ہے۔ قصہ ذوالقرنین اِن شاء اللہ بعد میں بیان ہوگا۔ اصحاب ِکہف کا واقعہ یہ ہے کہ چند نوجوان اپنے مشرک اور اللہ سے باغی معاشرے سے تنگ آکر بستی سے نکل کھڑے ہوئے اور پہاڑوں کے دامن میں ایک غار میں پناہ گزین ہوگئے۔ اللہ نے اُن پر طویل نیند طاری فرمادی۔ غار کے منہ پر ان کا کتا محافظت کرتا رہا۔ برسوں کے بعد جابر حکومت تبدیل ہوچکی تھی اور معاشرہ بدل چکا تھا۔ اللہ نے انہیں نیند سے بیدار فرمایا اور غار کے باہر کے حالات سے ان کو واقف کیا۔ جس کے بعد اسی غار میں ان پر موت طاری کردی گئی۔ اب وہ قیامت کو اٹھائے جائیں گے۔ اس کے بعد سیدنا موسیٰ ؑاور سیدنا خضر ؑ کی ملاقات کاذکر ہے۔ دنیا کا نظام اللہ کی جس مشیت کے تحت چل رہا ہے اس کی چند نشانیاں موسیٰ ؑکو دکھائی گئیں۔ سیدنا خضر ؑ اچھی بھلی کشتی کو ناکارہ کردیتے ہیں' پھر اچھے خاصے کھیلتے کودتے لڑکے کو قتل کردیتے ہیں اور کچھ ناشکرے کج خُلق لوگوں کے گاوں میں ایک گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دے دیتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام سے یہ باتیں برداشت نہیں ہوئیں' اعتراض فرماتے رہے۔ سیدنا خضر ؑ مشیت ِایزدی ان پر واضح کردیتے ہیںکہ اللہ کی طرف اس عملِ غیبی کا انجام خیر ہے' شر نہیں! ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا ۔ مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے۔ اللہ کی طرف سے جو ہدایت ان کے پاس آتی ہے اس میں جھگڑتے ہیں اور ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ قرآن میں ٹھیک ٹھیک سیدھی سیدھی باتیں ہیں تاکہ عقل رکھنے والے اور آیات میں غور و فکر کرنے والے ہدایت پائیں۔ |
No comments:
Post a Comment