ہماری ثقافت اور فیشن شوزWednesday، 2 November 2011 فیشن ہر انسان کا حق ہے خدا خود جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ اس نے لباس ستر کے لیے بنایا لیکن اس کو زیب و زینت کا ذریعہ بھی کہا پہلی سزا جو انسان کو دی گئی وہ بے لباسی تھی جب حضرت آدم و حوّا نے شجر ممنوعہ کو ہاتھ لگا یا تو انہیں بے لباس کر دیا گیا اور بقول قرآن ، انہوں نے پتے توڑ توڑ کر اپنا ستر چھپانے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگی تو انہیں معاف تو کر دیا گیا لیکن بطور سزا انہیں زمین پر بھیج دیا گیا سو یہ تھی لباس اور انسان کے تعلق کی کہانی جسے تمام آسمانی مذاہب نے تسلیم کیا ہے۔ دوسری طرف تاریخ دان کہتے ہیںکہ انسان نے ہزاروں سال تک وحشت میں زندگی گزارنے کے بعد جب تہذیب سیکھی تو اس کا بہت بڑا جزو لباس تھا۔ لیکن شاید انسان اپنے دور وحشت کی طرف پھر لوٹنے لگا ہے کہ وہ لباس کو مختصر سے مختصر کرتا جا رہا ہے اور اُس نے اسے ستر پوشی کا ذریعہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔زیب و زینت سے بھی اُس نے لباس کا اختصار ہی مراد لینا شروع کر دیا ہے۔ مغرب کی دنیا تو عرصہ دراز سے اس بیماری میں مبتلا ہو چکی تھی اور لباس کی اہمیت کھو چکی تھی لیکن اب مشرق نے بھی اندھا دھند اور بلا سوچے سمجھے اس دلدل میں پائوں رکھ دیا ہے ابھی تو یہ ایک خو بصورت فریب ہے لیکن اسکی گہرائی کا اندازہ نہیں کیا جا رہا ہے کہ ہم اپنی معاشرت اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارا ملک بہت سارے مسائل میں گھرا ہوا ہے اور ہمارا میڈیا ان مسائل کی نشاندہی بھی کر رہا ہے لیکن دوسری طرف ایک طبقہ وہ بھی ہے جو فیشن شوز کے نام پر مسلسل عریانیت کو فروغ دے رہاہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی میڈیا جو ملکی حالات پر تشویش سے آگے بڑھ کر واویلا مچا رہا ہوتا ہے کسی بھی ایسے فیشن شو کی خبر بڑے زور و شور کے ساتھ دیتا ہے اور اِن ملبوسات اور ماڈلز کے وہ، وہ زاویے دکھائے جاتے ہیں جنہیں کم از کم شریف خاندان کے افراد مل بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے اور ہمارے نیوز چینلز جن تعریفی کلمات کے ساتھ یہ خبر چلاتے ہیں وہ مزید قابل شرم ہیں۔ ہم اس وقت نہ صرف مسلح دہشت گردی کی زد میں ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہم اس ثقافتی یلغار کی زد میں بھی ہیں جو ہماری جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے لیکن ہمارا میڈیا خوش ہے کہ اِن بیہودہ قسم کے فیشن شوز سے ہمارے ملک کا سوفٹ امیج اجاگر ہو رہا ہے یعنی وہ ملبوسات جو ہماری ان ماڈلز کے علاوہ کوئی اور پہننے پر آمادہ نہیں کم از کم عوامی مقامات پر تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ ہمارے ملک اور ہماری ثقافت کو کیسے بین الا قوامی طور پر پیش کر سکتے ہیں اور اگر اِن شوز کو تجارتی مقاصد کے لیے پیش کیا جاتا ہے تو پھر اسے پاکستانی میڈیا پر کیوں فخر سے دکھایا جاتا ہے اور کیوں ملک میں اُس ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی نہ ہمارے مذہب میں اجازت ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرے میں یہ پسندیدہ ہے۔ لیکن چونکہ شاید ہم اسی چیز میں دنیا کے ساتھ مقابلے کے قابل ہیں اس لیے ہم زور و شور سے اس میں مصروف ہیں۔ ترقی کی دوڑ دوڑنے کے لیے تو ہمت بھی چاہیے اور قوت بھی اور اس کے لیے منصوبہ بندی بھی ضروری ہے جبکہ کیٹ واک کے لیے اِن میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ |
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197
No comments:
Post a Comment