Published on 30. Jan, 2012 تحریر: رؤف کلاسرا نواز شریف اور ان کے چاہنے والوں کے لیے شاید برا وقت آ پہنچا ہے یا شاید ایک ماہ پرانی عاصمہ جہانگیر کی وہ تاریخی پیشین گوئی کے پورے ہونے کا وقت آگیا ہے جو انہوں نے میمو گیٹ سیکنڈل پر سپریم کورٹ کے نواز شریف کی درخواست پر عدالتی کمشن بنانے کے فیصلے کے بعد کی تھی کہ وہ دن بہت جلد آئے گا جب یہ پیٹشن لانے والے میاں صاحب خود پچھتائیں گے۔ اب جب کہ اگلے ماہ سے نواز شریف پر آئی ایس آئی سے لاکھوں روپے لینے کی سماعات شروع ہو رہی ہے اور سپریم کورٹ نواز شریف کو سزا سناتی ہے تو بھی بری ٹھہرتی ہے کیونکہ نواز شریف کی پارٹی کے لیڈرز اور ان کا پنجابی میڈیا سپریم کورٹ کو نہیں چھوڑے گا۔ اگر کورٹ انہیں چھوڑ دیتی ہے تو عدالت پر مزید تنقید کے دروازے کھل جائیں گے اور پیپلز پارٹی کو کھل کر یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ یہ عدالت صرف ان کی پارٹی اور ان کے لیڈورں کا احتساب کر سکتی ہے وگرنہ جب پنجاب کے کسی لیڈر کی باری آتی ہے تو نظریہ ضرورت کا استعمال شروع ہو جاتا ہے۔ عمران خان بھی پیپلز پارٹی کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آئیں گے۔ نواز لیگ کے کیمپ میں بھی خطرے کی گھنٹی بچ چکی ہے اور ابھی سے پہلا پتھر چوہدری نثار علی خان نے یہ کہہ کر مارا ہے کہ عمران خان کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ ان کی جیب میں ہے۔ ان کے اس بیان کا مقصد سپریم کورٹ کو ابھی سے متنازعہ کرنا ہے کہ لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ نواز شریف کے خلاف یہ کیس عمران خان کے مطالبے پر سنا جارہا ہے وگرنہ اس پرانے کیس کو سننے کی بھلا کیا ضرورت تھی اور شاید سپریم کورٹ عمران کے اشارے پر نواز شریف کے خلاف یہ کیس سن رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی نثار نے آئی ایس آئی پر دوبارہ اپنے حملے شروع کر دیے ہیں حالانکہ ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا جب یہی نثار علی خان حکومت کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تو ان کی پارٹی موجودہ حکومت کی ایسی تیسی کر دے گی۔ بازی ایک ہفتے میں ہی پلٹ گئی ہے اور اب موصوف فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو آئی ایس آئی کے سیاسی کردار کو بھی دیکھنا ہوگا ۔ نواز لیگ کا یہ نیا روپ اس وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے انتیس فروری کو اصغر خان کی اس پندرہ سالہ پرانی پٹیشن سننے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اصغر خان نے نے مہران بنک سکینڈل کے حوالے سے یہ انکشاف کیا تھا کہ آئی ایس آئی نے پاکستانی سیاستدانوں بشمول نواز شریف کے کڑورں روپے بانٹے تھے تاکہ وہ الیکشن میں بے نظیر بھٹو کو ہرا سکیں۔ اصغر خان نے اپنی اس پیٹشن میں سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی اور مہران بنک کے صدر یونس حیبب کو پارٹی بنایا تھا۔ اصغر خان نے دراصل ایک خط اس وقت کے چیف جسٹں سجاد علی شاہ کو انیس سوچھیانوے میں لکھا تھا جو اس وقت کی پیپلز پارٹی حکومت کے وزیرداخلہ جنرل نصیرالللہ بابر کے قومی اسمبلی میں دیے گئے اس بیان کے حوالے سے تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی نے پیپلز پارٹی کو ہرانے کے لیے سیاستدانوں میں پیسے بانٹے تھے۔ جنرل بابر نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی نے چودہ کڑور روپے حیب بنک سے لے کر بانٹے تھے تاکہ انیس سو نوے کے انتخابات میں پی پی پی کو ہرایا جائے۔ اصغر خان نے اپنی اس پیٹیشن میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے اس رول کو بے نقاب کیا جائے کہ یہ کیسے انتخابات میں اپنی مرضی کے امیدواروں میں پیسے بانٹ کر مرضی کا ریزلٹ چاہتی ہے۔ سجاد علی شاہ ابھی اس کیس کی سماعت کر رہے تھے کہ ان کی عدالت پر حملہ ہوا اور پھر ججوں میں بغاوت کراکے کے ان کی چھٹی نواز شریف دور میں کر دی گئی۔ جنرل اسد درانی نے اپنے حلف نامے میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے جنرل بیگ کے کہنے پر پیپلز پارٹی کے مخالف امیدواروں میں چودہ کڑور روپے کی رقم تقسیم کی تھی۔ یہ انتخابات نواز شریف کے قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد نے جیت لیے تھے اور نواز شریف ملک کے وزیراعظم بن گئے تھے۔ نواز شریف کا نام بھی ان سیاستدانوں میں شامل تھا جنہوں نے آئی ایس آئی سے پینتیس لاکھ روپے لیے تھے۔ جنرل درانی کے بقول انہوں نے نواز شریف کو پینتیس لاکھ روپے، جنرل رفاقت چھپن لاکھ، میر افضل دس لاکھ، غلام مصطفے جتوئی پچاس لاکھ، محمد خان جونیجو پچیس لاکھ روپے، پیر پگاڑو بیس لاکھ روپے، عبدالحفیظ پیرزادہ تیس لاکھ روپے، یوسف ہارون پچاس لاکھ روپے، مظفر حسین شاہ تین لاکھ، عابدہ حسین دس لاکھ، ہمایوں مری چون لاکھ روپے، الطاف حسین قریشی اور مصطفے صادق پانچ لاکھ روپے، ارباب غلام آفتاب تین لاکھ روپے، اسماعیل راہو دو لاکھ، لیاقت بلوچ پندرہ لاکھ، جام یوسف پچتھر ہزار روپے، نادر مگسی دس لاکھ۔ اس کے علاوہ پیسے لینے والوں میں جام صادق، یوسف میمن، لیاقت جتوئی، آفاق احمد، اجمل خان، دوست محمد فیضی، جام حیدر، نواز شریف اینڈ اتفاق گروپ، سرتاج عزیز کا بیٹا عدنان، الطاف حسین، وغیرہ شامل تھے جنہیں بقول یونس حبیب کے انیس سو اکنانوے اور انیس سو چورانے میں ان کے بنک سے ادایئگیاں کی گئی تھیں۔ نواز شریف جب سپریم کورٹ میں میمو سکینڈل کے لیے اپنی پٹیشن لے کر جار ہے تھے تو کسی سیانے نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ اس وقت ہمیشہ کی طرح جلدی میں رہنے والے شریف برادرز سمجھ جارہے تھے کہ ایک تیر سے دو شکار ہوں گے۔ ایک طرف جہاں زرداری گیلانی کو عدالتوں کے ذریعے ہٹوانے میں آسانی ہو سکتی ہے اور ان کے فوج سے اختلافات شدید ہو ں گے، وہاں وہ بھائی فوج اور آئی ایس آئی کے بھی قریب ہو جائیں گے جن کے تعلقات سیاسی حکومت سے اس میمو سکینڈل کی وجہ سے بگڑ چکے تھے۔ نواز شریف کو علم تھا کہ انہیں فوج اور آئی ایس آئی میں پسند نہیں کیا جاتا اور انہوں نے فوج کو منانے کے لیے شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کو جنرل کیانی سے جی ایچ کیو جا کر چھ خفیہ ملاقاتوں کی بھی اجازت دی تھی کہ شاید بات بن جائے۔ تاہم نواز شریف فوج کو مطئن کرنے میں ناکام رہے جس پر نثار علی خان نے جنرل پاشا پر قومی اسمبلی کے اندر اور باہر بہت سخت تنقید شروع کر دی تھی۔ نواز شریف اور ان کے حامیوں کا خیال تھا کہ وہ سپریم کورٹ کو جہاں اپنے خلاف پرانے کیسز ختم کرانے کے لیے استعمال کر سکیں گے وہاں وہ زرداری اور گیلانی کی حکومت کو بھی شاید عدالت کے ذریعے ہٹوا سکیں گے۔ اب تک تو یہ حکمت عملی شاید کامیاب چل رہی تھی اور ایک ہفتہ قبل تک لگتا تھا کہ عدالت گیلانی کو نہیں چھوڑے گی اور وہ بہت جلد اڈیالہ جیل ہوں گے۔ تاہم اب اچانک بازی پلٹ گئی ہے اور عدالت نے میڈیا، اصغر خان اور عمران خان کے بار بار مطالبے پر اب وہ کیس سننے کا فیصلہ کر لیا ہے جو نواز شریف کی سیاسی قسمت کو ڈبو سکتا ہے۔ نواز شریف کو بھی یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ وہ عدالتوں کو اپنے سیاستدانوں کے خلاف استعمال کرنے کا غلط طریقہ اپنا چکے تھے اور وہ اسی جال میں پھنسے والے ہیں جو انہوں نے گیلانی اور زرداری کے لیے بنا تھا۔ سپریم کورٹ پر پچھلے دنوں بہت تنقید ہوتی رہی ہے کہ وہ نواز لیگ کو ریلیف دتی آ رہی ہے۔ بابر اعوان نے تو کھل کر نواز شریف اور شہباز شریف کو ریلیف برادرز کا نام دے دیا تھا۔ سزا کے طور پر بابر اعوان کا لائنسس پہلے ہی کینسل ہو چکا ہے حالانکہ وہ بھٹو ریفرنس کیس میں وکیل تھے ۔ یوں اب عدالت کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والی تنیقد کا راستہ روکنے کے لیے اس طرح کا تاثر دے کہ وہ نواز لیگ کے حق میں فیصلے نہیں دے رہی تھی بلکہ وہ واقعی ایک آزاد عدلیہ ہے۔ نواز شریف کو بہت دیر بعد بات سمجھ آئی کہ وہ میمو گیٹ پر سپریم کورٹ جا کر ٹریب ہو گئے تھے۔ لہذا جب ان کی درخواست پر بنایا گیا میمو کمشن امریکی شہری منصور اعجاز کو پاکستان لانے کے لیے ہر طرح کے منت ترلے کر رہا ہے، میاں صاحب لندن کی اس شدید سردی میں اپنے ماربل ارچ کے قریب واقع مہنگے فلیٹ پر آرام فرما رہے ہیں اور یقیناًعاصمہ جہانگیر کا فقرہ ان کے ذہن میں گونج رہا ہوگا کہ میاں صاحب ایک دن آپ پچھتائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا عدالت اپنے آپ کو آزاد ثابت کرنے کے لیے نواز شریف کے خلاف کارروائی کرے گی اور اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا میاں صاحب آزاد عدلیہ کے لیے یہ قربانی دینے پر تیار ہوں گے یا پھر آنے والے دنوں میں وہ کوئی نیا رفیق تارڑر پیدا کریں گے جو اس طرح ان کی جان موجودہ چیف جج سے اسی طرح بچا سکے، جیسے آج سے پندرہ سال قبل ججوں کو تقسیم کر کے جسٹں سجاد علی شاہ سے بچوائی تھی !! بشکریہ اخبار جہاں، کراچی |
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197
No comments:
Post a Comment