Wednesday, September 14, 2011

**JP** حکومت کسے بچانا چاہتی ہے؟




حکومت کسے بچانا چاہتی ہے؟

آصف فاروقی | 2011-06-20 ،12:42

چاہے سلیم شہزاد کا بہیمانہ قتل ہو یا اسامہ بن لادن کی روپوشی کا شرمناک واقعہ، حکومت کا رد عمل سمجھ سے بالاتر دکھائی دیتا ہے۔

نیتوں کے حال تو خدا بہتر جانتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کو ان دو سنگین معاملات کی تحقیقات کروانی مطلوب تھی تو اس میں ابہام پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

آخر حکومت کیوں صدر پاکستان آصف علی زرداری کے ایک ذاتی دوست جج کو سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے کمیشن کا سربراہ بنانا چاہتی تھی؟ کیا اسے کچھ پوشیدہ رکھنا مقصود ہے؟ جہاں تک اخباری رپورٹوں کا تعلق ہے تو ابھی تک کسی نے بھی اس قتل میں حکومت کے ملوث ہونے کا شائبہ تک ظاہر نہیں کیا پھر اس رویے کا کیا مطلب ہے؟

ایبٹ آباد کمشین کی سربراہی سپریم کورٹ کے جج کے سپرد کرنا لیکن اس میں ایسی مینگنی ڈالنا کہ مذکورہ جج خود بھی اس کے قریب نہ جانے پائیں۔ اس حرکت کا کیا مطلب ہے؟

کیا یہ بات حکومت میں کسی کو معلوم نہیں تھی کہ چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر سپریم کورٹ کا جج اس نوعیت کے کمشین کا رکن بننا قبول نہیں کر سکتا؟ دل اور دماغ یہ دلیل تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ بات یہ بھی نہیں ہے کہ اسامہ بن لادن کی روپوشی کی ذمہ داری صدر، وزیراعظم یا کابینہ کے کسی رکن پر عائد کی جا رہی ہو۔

پھر حکومت ان معاملات میں خواہ مخواہ کے تاخیری حربے استعمال کر کے کسے بچانا چاہتی ہے؟ اور کیوں؟
 

ببول کے درخت سے آم توڑنے کی خواہش ہے ہمیں، قائداعظم کے پاکستان کو نہ جانے کب ہم نے فلاحی ریاست سے قومی سلامتی کی ریاست بننے دیا اور چوکیدار کو گھر کا مالک بنا بیٹھے، پہلی بار ہم نے اپنے مسلح چوکیدار کو گھر کے مالک (پارلیمنٹ) کے سامنے گڑگڑاتے دیکھا ھے، کہ مالک عزت بچالے، مگر یہ عاجزی وقتی تھی، اب وہ مالک کا گریبان پکڑ کر خود کو صاف بچالے گا-نہ جانے کب پاکستان کے حقیقی راہنما ملک کو زلت و پستی کی دلدل سے نکالنے کے لئے سامنے آئیں گے اور گھر کا انتظام مالک کے سپرد کرکے، چوکیدار کو اسکی صحیح جگہ پہ بٹھائیں گے

نئے شہر سے پناہ ہی بہتر

اصناف:

ہارون رشید | 2011-06-09 ،15:43

پاکستان کے جیسے حالات چل رہے ہیں اس میں بڑی تعداد میں اس کے شہری ناامیدی اور پژمردگی کا شکار ہو رہے ہیں۔

انہیں لگتا ہے کہ اب بہتری کا امکان کم ہے۔ نہ تو امن عامہ میں بہتری کی امید ہے اور نہ ہی گلی نالی کی تعمیر کے لیے فنڈز ہیں۔ ایسے میں محسوس ہوتا ہے کہ ریاست اور حکومت کے اعلی ترین عہدے پر کام کرنے والے صدر آصف علی زردای بھی لاتعلق ہوچکے ہیں۔

عدالتی حکم کے بعد وہ ایوان صدر میں سیاسی اجلاس تو منعقد نہیں کر پا رہے لیکن آخر اتنے بڑے محل میں کچھ تو کرنا ہے۔ باغبانی سے تو وہ رہے۔ لگتا ہے انہوں نے بھی پاکستان کی حالت بہتر بنانے کی حد تک ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ وہ اب ایک نیا، غالبا چھوٹا اور زیادہ 'مینج ایبل' شہر آباد کرنے میں مصروف ہیں۔ ہر دوسرے روز وہ ذوالفقار آباد سے متعلق اجلاسوں کی صدارت کر رہے ہیں۔

اس نئی آبادی کا ماسٹر پلان اس سال کے اواخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔ اس شہر کے لیے ضلع ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے پسند کیے گئے ہیں۔ لیکن سرکاری بیان کے مطابق یہاں بیچز اور ٹرانسپورٹ کا جدید نظام ہوگا۔ مجھے بھی اس نئے شہر میں ایک پلاٹ چاہیے لیکن میری چند شرطیں ہیں۔

نمبر ایک: اثاثہ سمجھے جانے والے طالبان اور القاعدہ کو پلاٹ نہیں دیے جائیں گے۔

نمبر دو: یہاں سکیورٹی ادارے اپنے لوگوں کو نہیں ماریں گے۔

نمبر تین: بجلی/پانی چوبیس گھنٹے دستیاب رہیں گے۔

نمبر چار: مہنگائی قابو میں رہے گی۔

نمبر پانچ: انصاف سستا اور فوری ملے گا۔

نمبر چھ: تعلیم و صحت کی مفت سہولیات دستیاب ہوں گی۔

اگر یہ بھی باقی ملک کی طرح کا کوئی شہر ہے تو میں کم از کم دلچسپی نہیں رکھتا۔ پاکستان کو تو چھوڑ نہیں سکتا لیکن اس نئے شہر سے پناہ ہی بہتر۔

۔




--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197

No comments:

Post a Comment