Monday, August 6, 2012

**JP** محبت کا قرض

 

محبت کا قرض

 
 رات کا وقت کوئی گیارہ بجے کا عمل ہو گا ۔ پرائیویٹ ہسپتال میں ایک جوڑا اپنے بیٹے کے ساتھ داخل ہوا دونوں میاں بیوی انتہائی حواس باختہ تھے ۔بچے کی ٹھوڑی پر تازہ زخم کا نشان تھا جس سے خون رس رہا تھا ۔ماں نے جگر گوشے کو سینے سے لگایا ہوا تھا ۔باپ سیدھا استقبالیہ کی طرف دوڑا ۔باپ نے بچے کو او پی ڈی بیڈ پر لٹا دیا ۔بیوی کو تسلی دی ۔ڈاکٹروں نے چوٹ صاف کرکے مرہم پٹی کی ۔باپ بچے کو پیار کرتا اور تسلی دیتا رہا ۔ماں بچے کی دورانِ مرہم پٹی چیخ و پکار سن کر اپنے قدموں پر مزید بوجھ نہ ڈال پائی اور ویٹنگ روم کے بنچ پر بیٹھ کر رونے لگی - بچے کی مرہم پٹی کے بعد باپ نے ماں کو سہارا دے کر اٹھایا بچے کو بھی کندھے پر ڈالا اور یہ فیملی باہر نکل گئی۔ یہ سب دیکھ کر ویٹنگ لائونج کے ایک خاموش کونے میں بیٹھے بزرگ نے منظر ختم ہونے کے بعد اپنی آنکھوں میں رکے آنسوئوں کو چھپانے کے لیے سر جھکالیا- بڑی دیر سے وہ بزرگ بھی میری طرح بہادری سے ساتھ تماشا دیکھ رہے تھے- با با جی کافی دیر سے ویل چیئر پر خاموش اور اداس بیٹھے تھے- خاموش کونا اور وہاں چلتاہوا سبک رفتار پنکھا ہی ان کے ساتھی تھے۔ میاں بیوی اور بچے کا کھیل ختم ہونے کے بعد میں نے اپنی تمام تر توجہ بابا جی کی طرف مرکوز کردی - بابا جی کی عمر کوئی ستر کے لگ بھگ ہوگی بڑھاپے میں بڑی "یکسانیت" ہوتی ہے - جھریوں سے بھرا چہرہ پنکھے کی ہوا سے جھولتی ہوئی کان کی لو بھاری بھنویں اور پلکیں سب کچھ یکساں تھا- میں انہی سوچوں میں مگن تھا کہ اتنے میں ایک جوان اور چند لوگ وہاں آن پہنچے- جوان کا چہرہ مہرہ بابا جی سے مشابہہ تھا اور غالبا وہ ان کا بیٹا تھا۔بابا جی ان سے بے نیاز سر جھکائے بیٹھے رہے میں نہیں جانتا کہ با با جی کے بیٹے نے کیا گفتگو کی اپنے ساتھ موجود لوگوں سے۔ مگر اس کے چہرے پر رقصاں غصہ اور بے رخی میں صاف دیکھ سکتا تھا صاف ظاہر تھا کہ وہ لوگ بابا جی کو محض ایک بوجھ سمجھ کر ہسپتال لے آئے تھے اور شائد اس بے وقت کی تکلیف پر جی ہی جی میں بابا جی کو کوس بھی رہے تھے ۔بابا جی ان سے لا تعلق رہے اس وقت تک کہ ان کے بیٹے نے باہر چلنے کا حکم سنایا بے حسی کی انتہا تھی کہ کسی نے بابا جی کی وہیل چیئر کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ با با جی نے میکانکی انداز سے وہیل چیئر کو اپنے ہاتھوں میں بچے زور سے دھکیلنا شروع کیا گارڈ نے دروازہ کھولا بابا جی ہال سے باہر نکل گئے ۔میںجو بہت دیر سے بڑی بہادری سے اس کھیل کو دیکھ رہا تھا مزید بہادر نہ بن سکا اور ہسپتال کی کینٹین سے پانی لینے نکل کھڑا ہوا ۔ یہ مناظر آج کے دور میں عام ہیں وہ دور گزر گیا جب اولاد ماں باپ کی جی جان سے خدمت کرتی تھی جب ماں باپ کو اپنے جوان بیٹوں پر مان ہوتا تھا کہ شیر جیسے جوان بیٹوں کی موجودگی میں بھلا پریشانی کی کیاضرورت ۔ ما ں باپ کی اولاد سے محبت ایک فطری عمل ہے شادی کے بندھن میں بندھ جانے کے بعد نہ صرف ہر جوڑے کی بلکہ رشتہ داروں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ اب کوئی چاند آنگن میں آن اترے کہ جس کی کلکاریوں سے سارے گھر کی فضا روشن ہوجائے ۔ہمارے ہاں سوچ یہ کارفرما ہوتی ہے کہ بیٹا ہمارے بڑھاپے کا بوجھ اٹھائے گا اور بیٹی کو تو الٹا کچھ دے کر ہی جان چھڑوانی پڑے گی یہ ہیں ہم مسلمان اور بحیثیت مجموعی ہماری سوچ۔ ہم بیٹوں کی پرورش اور لاڈ پیار انہیں ایک ایسا "گھوڑا "سمجھ کر کرتے ہیں کہ جس پر ہم اپنے بڑھاپے کا بوجھ لادنے کا خواب دیکھتے ہیں پر جب خواب ٹوٹتے ہیں تو ہم اپنے نصیب کو کوستے ہیں۔ اولاد کو بھی بچپن میں انگلی پکڑ کر چلنا سکھانے والے والدین کے ساتھ محبت اور حسن سلوک کرنا چاہیئے کہ بڑھاپا ان کے حق ادا کرنے کا وقت ہوتا ہے یہ باہمی محبت کا داستان ہوتی ہے اور ہر انسان یہ بخوبی سمجھ سکتاہے کہ اس کے والدین نے کس قدر چھائوں اور محبت دی ہوگی تب جاکر وہ تناور درخت بن پایا ہے۔

No comments:

Post a Comment