اژدھا کے منہ میں چار سال
ملاعبدالسلام ضعیف سابق سفیر افغانستان برائے پاکستان
قسط چہارم:-پشاور میں قید
پشاورپہنچ کر ایک دفتر میں داخل ہوئے ۔پھر ایک سائڈ والے کمرےمیں لےجایا گیا۔ جس پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا اور دیوار پر قائد اعظم کی تصویر ٹنگی تھی۔ ایک خوبصورت میز کے سامنے گھومنے والی کرسی پر ایک آدمی جو شکل سے پختون لگتا تھا، بیٹھا ہوا تھا۔ درمیانہ قد، کلین شیو،ننگا سر اور سفید کپڑے پہنے یہ شخص میرے سامنے آکر کہنے لگا۔" میں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوں اور اس دفتر کا ذمہ دار ہوں۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ ایک ایسا مہمان جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور دیکھ کر خوش بھی ہیں۔"
میں نہیں سمجھتا کہ ان الفاظ کے معنی کیا تھے اور مجھے کیا پیغام دیا جا رہا تھا۔ میں اس آدمی کو سچا سمجھ رہا تھا۔ میں ایک ایسا شکار تھا جو اچھی قیمت دے سکتا تھا کیونکہ قیمتی مال ہر ایک کو پسند ہوتا ہے۔
اس دفتر کے ذمہ دار نے نے روٹی اورچائے کا پوچھا ، نماز پڑھی اور پھر اس کمرے میں لے جایا گیا جو قیدیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کی حالت نسبتاً اچھی تھی۔ واش روم،گیس اور بجلی کی سہولت میسر تھی۔ پانی وافر مقدار میں تھا۔ کمرے میں قرآن کریم کا ایک نسخہ بھی موجود تھا۔ کھانا بہتر تھا۔ ان سہولیات کے باوجود اگر کسی چیز کی ضرورت پڑتی تھی تو دروازے پر کھڑے پہرہ دار سے بات کرسکتا تھا اور وہ اس سلسلے میں کافی تعاون کررہے تھے۔ یہاں کوئی خاص تحقیقات نہیں ہورہی تھیں۔ البتہ اس دفتر کا ایک اہل کار جو اردو بولنے والے تھے، بار بار آتے تھے لیکن مجھے اردو نہیں آتی تھی اور وہ پشتو سے نابلد تھے۔ اس لیے ٹوٹی پھوٹی انگریزی کا سہارا لیتے تھے۔وہ پوچھتے رہتے تھے کہ کیا ہوگا۔ اور میں ایک ہی جواب دیا کرتا تھاکہ میں نہیں جانتا ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس دفتر کے اہل کار میرے کمرے میں آیا کرتے تھے۔ بہت عزت اور احترام کا سکول کرتے تھے لیکن بات کرنے سے گریز کرتے تھے۔ جب وہ مجھے دیکھتے تو ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے اور جلدی کمرے سے نکل جاتے ۔تیسرے دن شام کے وقت ایک اہل کار اندر آیا۔ میری بہت قدر کی، آہستہ آہستہ ہچکیاں لینے لگے۔ آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ ہچکیوں میں شدت آرہی تھی۔ پھر اچانک گر کر بے ہوش ہو گئے۔ بےہوشی کی حالت میں دفتر کے دیگر اہل کار اسے اٹھا کر باہر لے گئے۔مجھے پتا نہیں چلا کہ بعد میں اس پر کیا گزری لیکن اس کے بعد پھر میرے کمرے میں دیگر اہل کاروں کا آنا بند ہوگیا۔یہ وہ لمحہ تھا جس کے چار گھنٹے بعد مجھے امریکیوں کے حوالے کردیا گیا۔
رات گیارہ بجے میں نے سونے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ قد میانہ،داڑھی کسی برش کی طرح ، بھورے رنگ کا لباس پہنے ہوئے تھا۔سلام کرکے میرے قریب بیٹھ گیا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد کہا:" کیا آپ کو معلوم ہے کہ کیا ہورہا ہے ؟"
"نہیں" میں نے مختصر جواب دیا۔
"کیا آپ کو کسی نے کچھ بتایا بھی نہیں؟"
میں نے پھر وہی جواب دہرایا۔
اس نے پھر خود وضاحت کی"ہم ابھی اور اسی وقت آپ کو ایک اور جگہ منتقل کررہے ہیں۔آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔ واش روم سے ہوآئیے۔ اگر وضو کرنا ہےتو وہ بھی کر لیجیے۔"
میں واش روم سے ہو کرآیا اور ان سے یہ تک نہ پوچھا کہ آپ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں؟کیونکہ درست جواب کی امید نہیں تھی۔ تقریباً دس منٹ بعد مجھے اس کمرے سے باہر نکالا گیا جہاں ہاتھ میں ہتھ کڑیاں لیے ہوئے سادہ لباس میں ملبوس کچھ اہل کار موجود تھے۔ آنکھوں پر باندھنے کے لیے سیا ہ پٹی بھی پاس تھی۔ مجھے ہتھ کڑیاں لگائی گئیں اور آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔ زندگی میں اس قسم کا سلوک پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ مکمل تلاشی گئی ۔ قرآن کریم کا ایک نسخہ، چھوٹی سی انگلش ڈکشنری اور کچھ رقم انھوں نے چھین لی۔ پھر دھکے دے دے کر آگے روانہ کر دیا۔ لیکن اس دوران یہ لوگ بالکل خاموش تھے۔ باتیں بالکل نہیں کررہے تھے۔ اس لیے مجھے اندازے سے بھی ان کی شناخت میں دشواری پیش آرہی تھی۔
مجھے گاڑی میں ڈال دیا گیا اور تقریباً ایک گھنٹہ سفر کرنے کے بعد ہیلی کوپٹر کی آواز میرے سماعت سے ٹکرانے لگی۔میں اندازہ کررہا تھا کہ ضرور امریکیوں کا ہیلی کوپٹر ہوگا۔ اسی لمحے کسی نے حملہ کرکے میرے ہاتھ سے قیمتی گھڑی اتار لی۔ بعد میں اس گھڑی کا دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔۔ جب گاڑی ہیلی کاپٹر کے بہت قریب آئی تو دوبندوں نے مجھے پکڑ کر گاڑی سے اتارا اور چند قدم آگے لے جاکر کھڑے رہنے کا حکم دیا گیا۔چند لمحے بعد سرگوشی کے انداز میں اردوزبان کے یہ الفاظ میں سنے:"خداحافظ"جیسے کہ میں کسی پُرکشش یا سیاحت کے ایک خوبصورت سفر پر روانہ ہونے والا تھا۔ لیکن اس "خدا حافظ" سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ امریکیوں کے حوالہ کرنے کا وہ کرب ناک لمحہ آ پہنچا ہے۔
باقی آئندہ
No comments:
Post a Comment