السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کی تراویح
محمد احمد وصفی
- سورۂ اعراف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ''اے لوگو! اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کے پیچھے نہ لگو۔ قرآن کی پیروی کرو۔ قیامت میں ان لوگوں سے بازپرس ضرور ہوگی جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنا فرض کہاں تک انجام دیا اور لوگوں کی طرف سے کیا جواب ملا۔ لوگوں کو قیامت میں میزان کے مرحلے سے ضرور گزرنا پڑے گا۔'' ''اے لوگو! تمہیں زمین میں سب اختیارات دے کر بسایا' تمہاری پیدائش کے وقت تم کو فرشتوں سے سجدہ کراکے عزت بخشی اور تم کو نعمتوں سے مالامال کیا مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ اے بنی آدم! اللہ کی مقررہ حد سے تجاوز نہ کرو' اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ نے حرام کردیے ہیں بے شرمی کے کام خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے' اور حرام ہے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا اور حرام ہے اللہ کا نام لے کر کوئی ایسی بات کہنا جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ بات اللہ نے ارشاد فرمائی بھی ہے یا نہیں۔ اللہ سے سرکشی کرنے والوں کا جنت میں داخلہ ایسا ہی ناممکن ہے جیسا اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا۔ لیکن نیک اعمال کرنے والوں کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ اے لوگو! تم اللہ کو پکارو خوف اور امید کے ساتھ' یقیناً اللہ کی رحمت لوگوں کے قریب ہے۔'' اس کے بعد اللہ نے متعدد پیغمبروں اور ان کی امتوں کے حالات اور واقعات کا ذکر فرمایا ہے اور لوگوں کی سرکشی اور بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر اللہ کی طرف سے مختلف عذاب نازل ہوئے تھے ان کا ذکر فرمایا گیا ہے تاکہ لوگ نصیحت اور عبرت حاصل کریں اور دعوت و رسالت کو قبول کرکے ہدایت پائیں۔ یہ عبرت آموز واقعات سنانے کے بعد اللہ تعالیٰ نبیؐ سے ارشاد فرماتا ہے کہ ''اے نبی! لوگوں کو یاد دلائو کہ ہم نے روزاوّل تمام انسانی روحوں کو جمع کرکے ان سے پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے ایک ہی جواب دیا تھاکہ بے شک تو ہی ہمارا رب ہے' ہم اس پر گواہی دیتی ہیں۔'' اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''کیا لوگ اب اس اعلان کو بھول گئے جو شرک میں مبتلا ہوگئے؟'' اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ''نفس پرستی کی وجہ سے لوگوں کی حالت اس کتے جیسی ہوجاتی ہے جس کی زبان لالچ کی وجہ سے باہر لٹکتی رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح سے ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔'' اللہ تعالیٰ نبیؐ سے فرماتا ہے کہ ''اگر منکرین آپ کو جادوگر یا مجنون کہیں تو آپ اس کی کوئی پروا نہ کریں۔ آپ تو یہ فرمادیں کہ میں تو ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کو جو میری بات مانیں۔'' آخر میں نبیؐ کو تبلیغ کی یہ حکمت خصوصیت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ مخالفین کی زیادتیوں کا مقابلہ صبر و ضبط سے کریں تاکہ اشتعال کی وجہ سے کوئی ایسا واقعہ نہ ہوجائے جس سے تبلیغ کے کام میں رکاوٹ پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ نبیؐ سے ارشاد فرماتا ہے کہ ''آپ نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار فرمائیں اور جاہلوں سے نہ الجھیں۔ اے نبیؐ تم اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو رو رو کر اور خوف کے ساتھ دل ہی دل میں بھی اور باآواز بلند بھی۔ |
No comments:
Post a Comment