ناتمام
27 August, 2011
ہارون الرشید
اٹل ہے، تقدیر اٹل
رمضان المبارک کو جمعتہ الوداع کے دن وجود پانے والا پاکستان تابہ ابد تک قائم رہے گا اور جلد انشائ اللہ سرخرو ہوگا۔ کچھ چہرے مگر سیاہ ہونے والے ہیں اور لکھ لیجئے کہ بہت دیر اس میں باقی نہیں۔آج تک پاکستان سے جس کسی نے غداری کی ، اس کا انجام بھیانک ہوا۔آئندہ بھی جوغداری کا مرتکب ہو گا، اس کا منہ کالا ہو کر رہے گا۔ دیکھنے والے جلد ہی دیکھ لیں گے اور گواہی دینے والے انشائ اللہ گواہی دیں گے۔
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ لال ٹوپی والے نے دعویٰ کیا تھا کہ سیفما کی مشین، جس کے پلیٹ فارم سے میاںمحمد نواز شریف نے نظریہ پاکستان سے دستبرداری کا اعلان کیا، بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے روپے سے چلتی ہے۔ وہ کوئی ثبوت نہ دے سکا۔ یہ تو مگر آشکار ہے کہ اس ادارے کے مالی وسائل غیر معمولی ہیں، جس طرح کہ اس کا صدر تاحیات ہے ۔ پاکستانی اخبار نویسوں کی اکثریت کو ان سے اتفاق نہیں؛لہٰذا وہ ایک خالص پاکستانی تنظیم کے لیے مشورے کر رہے ہیں۔ بعض معتبرصحافیوں کے ساتھ میری گفتگو بھی ہوئی ۔ عرض کیا : ثمر بار ہونے والی ہر چیز کی بنیاد حسنِ نیت پہ ہوتی ہے ، ثانیاً ایجنڈا پہلے سے تشکیل نہ دیا جانا چاہئیے بلکہ صلاح مشورے کے بعد اور یہ مشاورت سچی ہونی چاہئیے۔ ثالثاً کوئی مستقل قیادت نہ چاہئیے بلکہ اجتماعی دانش کی حکمرانی اور خالص جمہوری انداز ۔ کسی ادارے پر کوئی ایک شخص مسلّط ہو جائے تو اس کی حالت جوہڑ کی سی ہو جاتی ہے۔ آزاد فضا ہی میں تازہ افکار نمو پاتے ہیں۔
پاکستان کو اجڈ پسند مذہبی اور انہتا پسند سیکولر نے برباد کیا ہے۔ قائد اعظم کو ان دونوں سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ جہاں تک سیکولر ازم کا تعلق ہے تو اپنی چالیس سالہ سیاسی زندگی میں محمد علی جناح(رح) نے ایک بار بھی یہ لفظ نہ برتا۔ اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو سکتاہے کہ یہ نظریہ ان سے منسوب کیا جائے، دراں حالیکہ وہ اس سے بیزار تھے۔ پھر یہ کہ مسلم معاشروں کے تناظر میں یہ اور بھی مضحکہ خیز ہے ۔ اس اصطلاح کے بانی ہولی ہوکس نے کہا تھا کہ کوئی شخص سچا سیکولر ہو ہی نہیں سکتا ، جب تک کہ وہ انکارِ خدا پر قائم نہ ہو۔ ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ مغربی اصطلاحات گمراہ کن ہیں۔ لفظوں کے خاندان اور نسلیں ہوتی ہیں ۔ ان کا باہمی تعلق او ررشتہ و پیوند ہوتا ہے۔ پسِ منظر سے الگ کرکے کسی لفظ اور کسی اصطلاح کو سمجھا او رسمجھایا جا ہی نہیں سکتا۔ برصغیر مگر ضد اور احساس کمتری کی سر زمین ہے ۔ ایک بار جس بات پہ لوگ اڑ جائیں، ٹلتے کسی طرح بھی نہیں۔ اسی لیے فرقہ پرستی اس خطے کو سازگار ہے۔قائد اعظم نے پاکستان کو پاپائیت سے آزاد ایک جدید اسلامی ریاست قرار دیا تھا اور ہمیشہ وہ ایسی ہی رہے گی۔ ملّا کی حکمرانی اس کے لیے قابلِ قبول ہو گی اور نہ اس سیکولر کی ، جو ابھی کل تک سویت یونین کے گیت گایا کرتا اور اب واشنگٹن کا سجدہ گزار ہے ۔ ہر حال میں عالمِ اسلام سے بیزار۔وہ مولوی صاحب بھی پاکستان کے وارث نہیں ہو سکتے ، قائد اعظم کی جنہوں نے ڈٹ کر مخالفت کی اور کافر ِ اعظم اس سچّے مسلمان کو کہا تھا۔
بارِ دگر وہ واقعہ لکھتا ہوں ، جو پہلے بھی عرض کر چکا۔ بیرون ملک سے میرے بھائی ایک زمانے میں صدقات کے لیے کچھ روپیہ بھیجا کرتے۔ اس کا ایک حصہ میں مدارس کی نذر کرتا۔ کچھ مولوی صاحبان نے گمان کیا کہ میں ان کے مسلک سے تعلق رکھتا ہوں۔ یا للعجب، ایک روز انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ قائد اعظم انگریزوں کے ایجنٹ تھے۔ سبحان اللہ، وہ شخص ، جس نے عمر بھر جھوٹ نہ بولا، زندگی بھر جسے کوئی حریف بھی بد دیانتی کا طعنہ نہ دے سکا۔ جس نے ادنیٰ درجے کی ریاکاری تک کا کبھی ارتکاب نہ کیا او رجس نے کم از کم دو مواقع پر کہاکہ وہ اکثریت کی رائے سے متفق نہیںلہٰذا قوم نیا لیڈر چن لے۔ ایسے کج بحث اور فاتر العقل لوگوں کا علاج کیا۔ اس پر جو دلیل انہوں نے دی ، وہ ایسی شاندار تھی کہ میں ہکّا بکّا رہ گیا ۔ کہا: مولانا شبیر احمد عثمانی تحریکِ پاکستان کی حمایت پر شرمسار تھے ۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی قبر پہ وہ تشریف لے گئے اور گریہ کیا۔ سامنے کی بات یہ تھی کہ مولانا مدنی کا انتقال جناب شبیر احمد عثمانی کی وفات کے برسوں بعد ہوا۔ ان کی قبر پر وہ کیسے چلے گئے؟ صحیح مسلم کے مولف ، مسلم تاریخ کے عظیم محدّث امام مسلم نے کہا تھا: اہلِ خیر جھوٹ بہت بولتے ہیں۔
پرویز مشرف نے اپنے وزیر خارجہ عبدالستار کو ڈانٹ پلا دی تھی کہ فلاں مولوی صاحب کی کرپشن کا کوئی ثبوت ہرگز موجود نہیں لیکن پھر ڈاکٹر محمود غازی مرحوم کو انہوںنے بتایاکہ مولوی صاحب اندرا گاندھی سے نقد روپیہ لے کر آئے تھے ۔ یہی نہیں ، ایک بار بھارت میں اخبار نویسوں کے سامنے یہ ارشاد بھی ان مولوی صاحب نے کیا کہ پاکستان ،بھارت اور بنگلہ دیش کے سیاستدان ایک گول میز کانفرنس کر کے اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندہئ تعبیر کر سکتے ہیں۔ قاضی حسین احمد سے اخبار نویسوں نے تبصرہ کر نے کو کہا تو ارشاد کیا کہ یہ ڈس انفرمیشن ہے۔ سیّد منوّر حسن کا اللہ بھلا کرے، اتنا بڑا جھوٹ ہضم کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا اور صاف صاف کہا کہ ان کی جماعت کا کوئی تعلق اس موقف سے نہیں ہے۔
افسوس کہ لوگ غور ہی نہیں کرتے کہ پاکستان کے لبرل فاشسٹ اور کٹھ ملّا کا ایجنڈا ایک ہے ۔ ان دونوں نے پاکستان کو دل سے کبھی قبول نہ کیا۔ یہ دونوں فریق دو قومی نظریے کے قائل نہیں البتہ غیر ملکی امداد کے دونوں پوری طرح قائل ہیں ۔ بعض مولوی صاحبان کو صدام حسین اور کرنل قذافی سے روپیہ ملتا رہا ۔ خفیہ ایجنسیاں خواہ اندھی ہوں مگر صرف اخبار نویس نہایت ہی آسانی سے ان لوگوںکی فہرست مرتب کر سکتے ہیں۔ کرنل قذافی کے یہ دونوں گروہ مدّاح رہے۔ایک اس لیے کہ بھٹو خاندان سے ان کے ذاتی مراسم تھے اور دوسرا اس لیے کہ ان کی مالی سرپرستی وہ کرتے رہے۔اب بھی بعض عرب ممالک ان کے سرپرست ہیں۔ ادھر لبرل فاشسٹ ہے ، جس کی این جی اوز مغرب سے کھلم کھلاڈالر وصول کرتی ہیں۔ ایک صاحب کی تصویر موجود ہے اور اخبار میں چھپی ہے کہ امداد عطا کرنے والے سفارت کاروں کے اجلاس میں کمال فخر کے ساتھ وہ تشریف فرما ہیں ۔ گذشتہ دنوں یہ صاحب ٹی وی کی ایک خاتون میزبان کو دھمکیاں دیتے رہے کہ وہ اس سے نمٹ لیں گے ۔ یہ بھی ارشاد کیا کہ ملک بھر کے اخبار نویس ان کے ساتھ ہیں۔ اخبار نویس تونہیں البتہ امریکی سفارت خانہ ضرور ہے۔ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کی جو حفاظت کر سکتا ہے ۔ کب تک ؟ مگر کب تک ؟ ایک بار ان صاحب نے اس ناچیز کو بھی دھمکی دی ۔ کہا: میں نمٹ لوں گا، عرض کیا: آپ کیا خاک نمٹیں گے ۔ عالی جناب کی کالی زبان میں دلیل سے بند کر دوں گا۔
آدمی بحران اور مصیبت میں پہچانا جاتا ہے۔ مصائب میں ایمان متزلزل ہو جاتا او رخوف اس کی جگہ لیتا ہے ۔ اخبار نویسوں اور دانشوروں کو ہم روتا ہوا پاتے ہیں کہ خدانخواستہ پاکستان کا وجود خطرے میں ہے۔ ہرگز نہیں۔ حکمران کمزورہیں ، پاکستانی قوم ہرگزنہیں۔ نئی نسل جاگ اٹھی ہے۔اپنا مستقبل وہ نواز شریف ، آصف علی زرداری ، الطاف حسین ، اسفند یار ولی یا حضرت مولانا فضل الرحمٰن کو سونپنے پر آمادہ نہیں۔ نظریہئ پاکستان سے نواز شریف دستبردار ہوئے ہیں، مسلم لیگی کارکن ، حتیٰ کہ ان کے حامی اخبار نویس تک نہیں۔ ایک آدھ کے سوا سبھی نے ان کا دفاع کرنے سے انکار کر دیا۔ تنخواہ داروں کی بات دوسری ہے ۔ اللہ کو جو رازق نہ جانے ، اس کے بہت سے رازق ہو تے ہیں۔ خوف میں مبتلا وہ کر دیا جاتا ہے ۔ خوشامد اور جھوٹ اس کا شیوہ ہو جاتا ہے ۔جسے کمزور پائے ، اس کے مقابل فرعون اور طاقتور کے لیے موم۔ایسے ہی کچھ لوگوں سے آج کل میرا واسطہ ہے۔زبانِ حال سے جو یہ کہتے ہیں
ع میں تھانے دار کی سالی ، قید کرادوں گی
27 رمضان المبارک کو جمعتہ الوداع کے دن وجود پانے والا پاکستان تابہ ابد تک قائم رہے گا اور جلد انشائ اللہ سرخرو ہوگا۔ کچھ چہرے مگر سیاہ ہونے والے ہیں اور لکھ لیجئے کہ بہت جلد۔ پاکستان سے آج تک جس کسی نے غداری کی ، اس کا انجام بھیانک ہوا۔ آئندہ بھی جو غداری کا مرتکب ہو گا، اس کا منہ کالا ہو کر رہے گا۔ دیکھنے والے جلد ہی دیکھ لیں گے اور گواہی دینے والے انشائ اللہ گواہی دیتے رہیں گے۔ ایک ملک شیطان نے بنایا تھا ، اسرائیل اور دوسرا رحمٰن نے ، پاکستان۔ دونوں کو ایک روز مقابل ہونا ہے۔ یہ تقدیر کا فیصلہ ہے اور تقدیر اٹل ۔
--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197
No comments:
Post a Comment