Monday, September 20, 2010

**JP** Unsung Heroes of our Country

پاگل آئس کریم والا !

بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ علاقہ جات کے دورے کا احوال ایک ڈائری کی صورت میں بیان کر رہے ہیں۔ پیش ہے اس سلسلے کی بتیسویں کڑی جو انہوں نے ٹھٹہ سے بھیجی ہے۔

بدھ، پندرہ ستمبر ( کوئٹہ)

آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں تو سیلاب نہیں آیا پھر میں وہاں کیا کررہا ہوں۔ صرف دو وجوہات ہیں، اول یہ کہ تمام تیرہ متاثرہ اضلاع کے لیے بنیادی راستہ کوئٹہ سے نکلتا ہے۔ چاہے مشرقی یا شمال مشرقی بلوچستان کے بارش اور پہاڑی نالوں کی مار سہنے والے اضلاع ہوں یا جنوب مشرقی بلوچستان میں دریائے سندھ کے توڑی بند ٹوٹنے سے ڈوبنے والا ضلع جعفر آباد ہو کہ نصیر آباد۔


دوسری وجہ میرے کوئٹہ میں ہونے کی یہ ہے کہ جن راستوں سے میں بلوچستان کے براہ راست متاثرہ اضلاع میں جاؤں گا انہی راستوں سے لگ بھگ پچاس ہزار سیلاب متاثرین کوئٹہ پہنچے ہیں۔کیونکہ امداد کے تمام سرکاری وغیر سرکاری سوتے یہیں سے پھوٹتے ہیں اور سب سے زیادہ یعنی پچپن کیمپ بھی کوئٹہ ضلع میں بنے ہیں۔اور یہ کہ اونچائی پر ہونے کے سبب کوئٹہ کا موسم بھی قدرے بہتر ہے۔

آج صبح کوئٹہ میں اترتے ہی پریس کلب پہنچا ۔کیونکہ میں ان سیلاب زدگان صحافیوں سے پہلی فرصت میں ملنا چاہتا ہوں جن کا تذکرہ کوئٹہ میں بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین اپنی ایک رپورٹ میں کرچکے ہیں۔سب سے زیادہ متاثر جعفر آباد کی چار تحصیلوں کے صحافی ہیں۔ تعداد لگ بھگ چھہتر ہے۔ ان میں سے آدھے کوئٹہ میں ہیں اور باقی سندھ کے مختلف علاقوں میں ہیں۔ جعفر آباد کی تحصیل ڈیرہ اللہ یار ، گنداخا اور صحبت پور کے پریس کلب بھی زیرِ آب ہیں۔

جتنے بھی صحافی متاثر ہوئے ہیں ان میں سے ایک آدھ کے علاوہ سب کا اپنے اداروں سے اعزازی رشتہ ہے۔کوئی کاشتکاری کرتا ہے تو کسی کی پرچون کی دوکان ہے تو کسی کا میڈیکل سٹور۔ یہ صحافی اپنے اخبارات اور چینلز کو فی سبیل اللہ خبریں بھیجتے ہیں اور ادارے انہیں تھینک یو سو مچ کی کرنسی میں ادائیگی کرتے ہیں۔ نہ تنخواہ کا جھنجھٹ ، نہ ویج بورڈ کی کِل کِل ، نہ تقرری و برطرفی کا جھمیلہ۔ جہاں رہو جس حال میں رہو خوش رہو آباد رہو۔۔۔۔۔

سوائے ایکسپریس گروپ کسی مقامی یا غیر مقامی اخبار یا چینل کی مقامی یا مرکزی انتظامیہ نے اپنے ان خبر نگاروں کی ذاتی مدد نہیں کی۔ اظہارِ ہمدردی ضرور کیا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھا ہے کہ آپ کے حالات کا ہمیں بخوبی احساس ہے پھر بھی اگر کوئی خبر یا فوٹیج بجھوا سکیں تو ؟؟؟

ایک اخباری گروپ نے ڈیرہ اللہ یار کے اپنے نمائندے کو یقین دلایا ہے کہ نظریہ پاکستان کونسل سے انکے لیے کچھ مالی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کوئٹہ سے شائع ہونے والے ایک اخبار نے متاثرہ صحافیوں سے کہا ہے کہ ادارہ مالی مدد کرنے کی پوزیشن میں تو نہیں البتہ مسائل اجاگر کرنے اور اپیلوں کے لیے اخباری صفحات حاضر ہیں۔

وزیرِ اعلی بلوچستان نے چار متاثرہ پریس کلبوں کے لیے پانچ لاکھ روپے کی گرانٹ کا اعلان ضرور کیا ہے لیکن اب تک ذلت ماآب صحافی عزت ما آب وزیرِاعلی کے درشن سے محروم ہیں۔ایک مخیر نے نام نہ بتانے کی شرط کے ساتھ ان قلم کاروں کے لیے پچاس ہزار روپے کوئٹہ پریس کلب کی انتظامیہ کو دیے ہیں۔

کوئٹہ پریس کلب ہی کی کوششوں سے متاثرہ صحافیوں کو تین مرتبہ مختلف سرکاری و غیر سرکاری ادارے خشک راشن بھی دے چکے ہیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ جتنے بھی صحافی متاثر ہوئے ہیں ان میں سے ایک آدھ کے علاوہ سب کا اپنے اداروں سے اعزازی رشتہ ہے۔کوئی کاشتکاری کرتا ہے تو کسی کی پرچون کی دوکان ہے تو کسی کا میڈیکل سٹور۔ یہ صحافی اپنے اخبارات اور چینلز کو فی سبیل اللہ خبریں بھیجتے ہیں اور ادارے انہیں تھینک یو سو مچ کی کرنسی میں ادائیگی کرتے ہیں۔ نہ تنخواہ کا جھنجھٹ ، نہ ویج بورڈ کی کِل کِل ، نہ تقرری و برطرفی کا جھمیلہ۔ جہاں رہو جس حال میں رہو خوش رہو آباد رہو۔۔۔۔۔

سوائے ایکسپریس گروپ کسی مقامی یا غیر مقامی اخبار یا چینل کی مقامی یا مرکزی انتظامیہ نے اپنے ان خبر نگاروں کی ذاتی مدد نہیں کی۔ اظہارِ ہمدردی ضرور کیا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھا ہے کہ آپ کے حالات کا ہمیں بخوبی احساس ہے پھر بھی اگر کوئی خبر یا فوٹیج بجھوا سکیں تو ؟؟؟

آج میری ملاقات جن لوگوں سے ہوئی ان میں توغی روڈ کے فٹ پاتھ پر آئس کریم بیچنے والے فاروق احمد بھی ہیں۔میں نے اب تک کی پیشہ ورانہ زندگی میں بڑے بڑے پاگل دیکھے ہیں لیکن فاروق جیسا پاگل پہلی دفعہ ٹکرایا۔

میں کباب میں ہڈی نہیں بننا چاہ رہا۔آپ فاروق احمد سے براہ راست کیوں نہیں مل لیتے۔

'ساٹھ برس پہلے جب ہمارا خاندان کوئٹہ میں آ کر آباد ہوا تو میرے والد گوشت بیچا کرتے تھے۔میں چوّن سال پہلے اسی شہر میں پیدا ہوا۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کی پھر سرکاری محکموں میں مشینری کی سپلائی کے چھوٹے موٹے ٹھیکے لینے شروع کر دیے۔ برسوں یہی کام کرتا رہا۔ اب سے دس برس پہلے خدا سے دعا کی کہ میری ٹھیکیداری سے جان چھڑا دے۔اس کام میں بہت جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔خدا نے اس کا سبب ایسے پیدا کیا کہ ایک دن میری ایک آرڈر کے سلسلے ایک ایس ڈی او سے منہ ماری ہوگئی ۔اس نے اتنی بدتمیزی کی کہ میں نے اسے ٹھوک پیٹ دیا۔یوں میں بلیک لسٹ ہو کر سڑک پر آگیا۔ایسی نوبت آگئی کہ ایک دن گھر میں بچی کے دودھ کے پیسے بھی نہیں تھے۔

اس روز بیوی نے کہا تم آئس کریم کیوں نہیں بیچتے۔میں تمہیں آئس کریم بنا کر دیتی ہوں۔میں نے اسے کچھ پیسے ادھار لے کر دے دیے۔لو جی اس نے اتنی لذیذ آئس کریم بنائی کہ فیصلہ ہوگیا کہ اب یہی کام ہوگا اور میں ہینڈ میڈ آئس کریم لے کر اپنے گھر کے باہر بیٹھ گیا اور یہ بھی عہد کیا کہ اگر کاروبار چل نکلا تو آمدنی کا کم ازکم دس فیصد اور زیادہ سے زیادہ جتنا ہوسکا ضرورت مندوں پر خرچ کروں گا۔ یہ بھی تہیہ کیا کہ یہ آئس کریم پوڈر کے دودھ سے نہیں بنے گی۔اس میں صرف فلیورز نہیں ہوں گے اصلی فروٹ اور پستے ڈلیں گے۔

فاروق

'ایک زمانہ تھا میں صرف کلف لگا شلوار قمیض پہنتا تھا۔اب نہیں پہنتا۔'

ایک صاحب نے بازار میں اپنی دوکان کے سامنے ازراہِ مہربانی فٹ پاتھ پر جگہ دے دی جہاں رات آٹھ بجے سے بارہ بجے تک آئس کریم بکنی شروع ہوگئی۔ پھر لوگوں نے مجھے تقریبات کے لیے آرڈر دینے شروع کیے اور میں نے گدھا گاڑی کرائے پر لے کر سپلائی شروع کر دی۔ آج نو سال بعد حالت یہ ہے کہ چار گھنٹے میں سات آٹھ ڈبے دکان پر ہی بک جاتے ہیں اور میرا بیٹا الگ سے سوزوکی کیری میں آئس کریم سپلائی کرتا ہے۔ دو ملازم بیوی کی نگرانی میں آئس کریم بناتے ہیں اور وہی دکان پر کھڑے ہوتے ہیں میں زیادہ تر مصیبت زدگان کو ڈھونڈتا ہوں۔

جن خواتین قیدیوں کو دارالامان میں عارضی طور پر رکھا جاتا ہے۔انہیں اکثر کھانا دے آتا ہوں۔ جیل میں قید بچوں کے لیے کھلونے اور آئس کریم لے جاتا ہوں۔ تین مستحق بچیوں کی میں اور میری بیوی تمام اخراجات کے ساتھ شادی کروا چکے ہیں۔ بہت سوں کو شادی کے کھانے پر آئس کریم دے دی جاتی ہے۔ کسی کا مکان مالی مجبوری کے سبب رک گیا تو اسے ریت یا سیمنٹ لے دیا۔ ایک صاحب کو خراد مشین خریدنے کے لیے لاکھ روپے دے دیے آج ان کی پوری ورکشاپ ہے۔

میں ہر بھکاری کو پیسے نہیں دیتا۔روپے دو روپے سے نہ انکا بھلا ہوسکتا ہے نہ دینے والے کا۔میں خود بھکاریوں کا پس منظر جانچتا ہوں اور کسی مجبوری کے تحت بھیک مانگنے والوں کو دو ڈھائی ہزار روپے سے آلو پیاز کی ریڑھی لگوا دی یا اوزار خرید کر دے دیے۔

اگر کوئی جانور مردہ نظر آجائے تو مزدوروں کو کچھ پیسے دے کر تدفین کروا دیتا ہوں۔ پچھلے سال میں نے نوا کلی ، گلستان روڈ، وفا روڈ اور پولیس لین میں پانچ سو ساٹھ پودے لگوا دیے۔ ان کی دیکھ بھال ہو رہی ہے، اگلے برس تک وہ درخت بن جائیں گے۔

دو ہزار پانچ میں جب شمالی پاکستان میں زلزلہ آیا تو کوئٹہ سے بھی ایک امدادی ٹرین بھیجی گئی۔ جی تو بہت چاہ رہا تھا کہ خود بھی چلا جاؤں لیکن پیچھے کام کون دیکھتا۔بس اتنا کرسکا کہ اس ٹرین میں جتنے بھی امدادی کارکن جارہے تھے ان کے ساتھ کھانا کر دیا۔ لیکن دو ہزار آٹھ میں زیارت میں زلزلے کے متاثرین جب کوئٹہ آئے تو دو سو متاثرین کے لیے کھانا، کمبل، رضائیاں اور بچوں کی دوا دارو کا انتظام کر کے دو ہزار پانچ کے زلزلے سے متاثرہ افراد کے ساتھ خود نہ ہونے کا احساسِ جرم مٹانے کی کوشش کی۔

پچھلے دنوں میرے دل پر بڑا بوجھ رہا۔اسپتال میں ایک لڑکی کی لاش دیکھی ۔اس کے ورثا کو اس پر ڈالنے کے لئے چادر بھی کسی سے مانگنی پڑی۔ میری پوری کوشش ہے کہ ایک مہینے میں مفت کفن کا پروجیکٹ بھی شروع کردیا جائے۔آج کل تو کوئٹہ میں کفن بھی کم ازکم چھ سو روپے کا ملتا ہے۔ ہزاروں لوگ ہیں جن کے پاس چھ سو بھی نہیں ہوتے۔

فاروق

حالیہ سیلاب کے جو متاثرین کوئٹہ آئے ہیں، میرا اور میری فیملی کا دل تو چاہتا ہے کہ سب کی کچھ نہ کچھ خدمت ہوسکے۔لیکن مصیبت اتنی بڑی ہے کہ ایسا کرنا ایک آدمی یا خاندان کے لئے بہت مشکل ہے۔ پھر بھی بوائے سکاؤٹس ایسوسی ایشن کے کیمپ اور سپیشل بچوں کے سکول میں لگنے والے کیمپ میں کوئی چار سو ساڑھے چار سو بچوں اور بڑوں کی حجامت بنوا دی ہے۔ دو سو سیلاب زدگان کو ایک دن کا کھانا بھی پہنچایا ہے۔ ضرورت کے برتنوں، اور کپڑوں کے علاوہ سب کپڑے اور برتن سیلاب زدگان کو دے دیے ہیں۔ دریاں اور پلاسٹک شیٹس بھی خریدی ہیں۔ محلے میں بھی سامان جمع کررہے ہیں۔

چاند رات کو میری بیوی دونوں کیمپوں میں سویاں اور چوڑیاں لے گئی۔ بیٹی نے بیوٹیشن کا کورس کیا ہوا ہے۔اس نے پچاس ساٹھ بچیوں کو مہندی لگا دی۔ ان میں سے جو تیز پچیاں تھیں وہ فوراً سیکھ گئیں اور پھر سب نے مل کر دنوں کیمپوں میں سب خواتین کے ہاتھوں پر مہندی لگا دی۔عید کے دن دونوں کیمپوں میں رہنے والوں نے آئس کریم بھی کھائی۔

پچھلے دنوں میرے دل پر بڑا بوجھ رہا۔اسپتال میں ایک لڑکی کی لاش دیکھی ۔اس کے ورثا کو اس پر ڈالنے کے لئے چادر بھی کسی سے مانگنی پڑی۔ میری پوری کوشش ہے کہ ایک مہینے میں مفت کفن کا پروجیکٹ بھی شروع کردیا جائے۔آج کل تو کوئٹہ میں کفن بھی کم ازکم چھ سو روپے کا ملتا ہے۔ ہزاروں لوگ ہیں جن کے پاس چھ سو بھی نہیں ہوتے۔

ایک زمانہ تھا میں صرف کلف لگا شلوار قمیض پہنتا تھا۔اب نہیں پہنتا۔ کلف والے کپڑے پہننے سے بندے میں انا اور غرور آجاتا ہے۔۔۔۔'

فاروق احمد کی کہانی کے بعد فی الحال کچھ لکھنے کا جی نہیں چاہ رہا۔ آج میں نے کوئٹہ میں اور کیا کیا کیا۔۔۔رات گئے لکھنے کی کوشش کروں گا۔


Courtesy : www.bbc.co.uk/urdu

--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197

No comments:

Post a Comment